تھے۔ جنہیں انگریز کی چشم کرم نے ملازمتوں پر فائز کیا تھا۔ ان کے توسط سے قادیانی منصوبہ بندی پایۂ تکمیل تک پہنچتی رہی۔ (خطبہ جمعہ ۴؍جنوری ۱۹۵۲ء بمقام ربوہ)
۱۹۵۲ء میں مرزابشیر الدین محمود نے ایک خطبہ میں اپنے اسی پلان کا اظہار کیا۔ اگر وہ (قادیانی جماعت کی صوبائی شاخیں) اپنے نوجوانوں کو دنیا کمانے پر لگائیں تو اس طرح لگائیں کہ جماعت اس سے فائدہ اٹھاسکے۔ بھیڑچال کے طور پر نوجوان ایک ہی محکمے میں چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ متعدد محکمے ہیں۔ جن کے ذریعے سے جماعت ۱؎ اپنے حقوق حاصل کر سکتی ہے اور اپنے آپ کو شر سے بچاسکتی ہے۔ جب تک ان سارے محکموں میں ہمارے اپنے آدمی موجود نہ ہوں۔ ان سے جماعت پوری طرح کام نہیں لے سکتی۔ مثلاً موٹے موٹے محکموں میں سے فوج ہے۔ پولیس ہے، ایڈمنسٹریشن ہے، ریلوے ہے، فائننس ہے، اکاؤنٹس ہے، کسٹم ہے، انجینئرنگ ہے۔ یہ آٹھ دس موٹے موٹے صیغے ہیں۔ جن کے ذریعہ سے ہماری جماعت اپنے حقوق محفوظ کر سکتی ہے۔ ہماری جماعت کے نوجوان فوج میں بے تحاشا جاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ہماری نسبت فوج میں دوسرے محکموں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے اور اس سے ہم اپنے حقوق کی حفاظت کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ باقی محکمے خالی پڑے ہیں۔ بے شک آپ اپنے لڑکوں کو نوکری کرائیں۔ لیکن وہ نوکری اسی طرح کیوں نہ کرائی جائے جس سے جماعت فائدہ اٹھا سکے۔ ہمیں اس بارے میں خاص پلان بنانا چاہئے اور پھر اس کے مطابق کام کرنا چاہئے۔‘‘
(الفضل قادیان ج۴۰،۶ ش۱۰ ص۴، مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
اس منصوبے کی تکمیل کے لئے قادیانیوں نے ہر ملازمت میں اپنے افراد بھیجے اور اس وقت افواج کے سربراہ (پی،اے،ایف) کورکمانڈر، دیگر فوجی افسران، ٹیکسٹ بک بورڈ کا چیئرمین اور دیگر بے شمار عہدوں پر مرزائی قابض ہیں اور اس ذریعے سے اپنے ہم مذہب (قادیانی) نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کر رہے ہیں۔ صرف سرگودھا کی مثال کافی ہے۔ راجہ غالب سیکرٹری بورڈ تھے اور مرزاطاہر احمد اسسٹنٹ سیکرٹری۔ ہر دو صاحبان نے صرف انہیں طلبہ کو ملازمتیں فراہم کیں جو ربوہ سے رقعے لائے تھے اور اس وقت ساٹھ فیصد ملازمتیں قادیانیوں کے قبضے میں ہیں۔ یہودی منصوبے کی اس کڑی کے ذریعے قادیانیوں نے اپنے نظریہ کی تبلیغ بھی کی۔
۱؎ سبحان اﷲ! (ابھی کچھ حقوق میں کمی ہے) اور جماعت کے حقوق حاصل کرنے کی بنیاد کیا ہے اور جماعتوں کو الگ الگ حقوق کیوں ملیں۔ اس ایک لفظ نے سارے مسئلہ کو سمجھنے کی راہ کھول دی ہے۔ مسلمانو! آنکھیں کھولو۔