معاشرے اور عثمانی خلافت کی جڑیں کاٹنے میں انہیں کوئی قانونی دشواری نہ رہی۔ امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب ’’حاضر العالم الاسلامی‘‘ میں ان کے گھناؤنے کردار سے پردہ اٹھایا ہے۔
’’مسلمان رہنما اس بات کو خوب اچھی طرح جان گئے تھے کہ نوخیز ترکی کی قیادت مغرب پرست ملحد گروہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں۔ ورنہ حقیقت میں زندیق یہودی ہیں۔ دونمہ کے معنی ہیں دو چہروں اور رخوں والے۔ یہ لوگ نہایت ذکی وفہیم تھے۔ خصوصاً اقتصادی امور میں زبردست مہارت رکھتے تھے۔ چنانچہ ترکی معاشرے میں انہیں اپنی تعداد سے کئی گنا زیادہ اثر ورسوخ حاصل ہوگیا۔‘‘
مسلم معاشرے میں مل جانے کی وجہ سے ان یہودیوں نے جو فوائد حاصل کئے تھے ان میں یہ بہت بڑا فائدہ تھا کہ ان کے ہم رنگ زمین دام کو کوئی سمجھ نہ سکا۔ ان کے نام مسلمانوں جیسے تھے۔ ان کے اعمال میں تقویٰ کی ظاہری چمک تھی۔ وہ مساجد کی طرف عام مسلمانوں سے بھی زیادہ ذوق وشوق سے جاتے تھے۔ ان کے ماتھوں پر محرابیں بنی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھ تسبیح کے منکوں پر گردش کرتے تھے۔ اس ظاہری تقویٰ کے ساتھ کوئی بھی ان کے گھناؤنے کردار کو نہ جان سکا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اسی نام نہاد مسلمانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کلیدی مناصب حاصل کرنے کی پوری کوشش کی اور حکمرانوں کی چاپلوسی کر کے انہوں نے اعلیٰ عہدے حاصل کر لئے۔ فرانس کا مسیحی مصنف بائرہیس اپنی کتاب ’’جمہوریہ اسرائیل‘‘ میں لکھتا ہے۔
’’دو نمہ یعنی وہ یہودی جو مسلمان ہوگئے تھے۔ بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ انہی میں سے صوبہ ڈینیوپ کا گورنر مدحت پاشا تھا۔ جو ہنگری کے ایک شخص حاخام یہودی کا بیٹا تھا۔ اس حاخام نے مشرق قریب میں متعدد یہودی درس گاہیں قائم کی تھیں۔ انجمن اتحاد وترقی کے اکثر قائدین دونمہ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر ناظم، فوزی پاشا، طلعت پاشا اور سفرم آفندی وغیرہ۔‘‘
یہ وہ طریقۂ واردات تھا جس کے ذریعہ یہودی مسلم معاشرے میں گھس آئے۔ انہوں نے معیشت ومعاشرت پر قبضہ کیا۔ انہوں نے منڈی وبازار پر قبضہ کیا۔ انہوں نے فوج اور سول پر قبضہ کیا اور پھر ایوان حکومت تک نقب لگائی۔ شبتے سیبی کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مندرجہ ذیل مدارج سے گذرا۔
۱…
اس نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔
۲…
اس نے تبلیغی سفر کئے۔ تبلیغی وفود روانہ کئے اور بیرون ملک روابط رکھے۔