زبانی ہی سنئے۔ طب کے امام حکیم بو علی سینا لکھتے ہیں۔ ’’مالیخولیا اس مرض کو کہتے ہیں جس میں حالت طبعی کے خلاف خیالات وافکار متغیر خوف وفساد ہوجاتے ہیں۔ اس کا سبب مزاج سودادی ہو جانا ہوتا ہے۔ جس سے روح دماغی اندرونی طور پر متوحش ہوتی ہے اور مریض اس کی ظلمت سے پراگندہ خاطر ہو جانا ہے۔‘‘ (قانون شیخ الرئیس حکیم بو علی سینا فن اوّل از کتاب ثالث)
اس مرض کے علاج کے طور پر حکیم بو علی سینا لکھتے ہیں۔ ’’مریض مالیخولیا کو لازم ہے کہ کسی دل خوش کن کام میں مشغول رہے اور اس کے پاس وہ لوگ رہیں جو اس کی تعظیم وتکریم کرتے رہیں اور اس کو خوش رکھیں۔‘‘
اس مرض مالیخولیا کے کرشمے بھی بڑے عجیب ہیں۔ اس کے مریض عجیب وغریب عادات کے مالک بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ برہان الدین نفیس نے لکھا۔ ’’مالیخولیا خیالات وافکار کے طریق طبعی سے متغیر بخوف وفساد ہو جانے کو کہتے ہیں۔ بعض مریضوں میں گاہے گاہے یہ فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیب دان سمجھتا ہے اور اکثر ہونے والے امور کی پہلے ہی خبر دے دیتا ہے اور بعض میں یہ فساد یہاں تک ترقی کر جاتا ہے کہ اس کو اپنے متعلق یہ خیال ہوتا ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔‘‘ (شرح اسباب والعلامات امراض راس مالیخولیا)
اسی طرح حکیم محمد اعظم خان لکھتے ہیں۔ ’’مریض کے اکثر اوہام اس کام سے متعلق ہوتے ہیں۔ جس میں مریض زمانہ صحت میں مشغول رہا ہو۔ مثلاً مریض صاحب علم ہو تو پیغمبری اور معجزات وکرامات کا دعویٰ کردیتا ہے۔ خدائی کی باتیں کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘
(اکسیر اعظم ج۱ ص۱۸۸)
اب ذرا غور فرمائیے کہ مالیخولیا کا ایک مریض جو اپنے مرض کے ہاتھوں مجبور ہوکر معجزات وکرامات کی باتیں کرتا ہے۔ پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کی حیثیت کیا ہے۔ جو آدمی بھی اس بات کا دعویٰ کرے کہ اس پر الہام نازل ہوتے ہیں اور یہ ثابت ہوجائے کہ اس کو ہسٹیریا،مالیخولیا، مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعوے کی تردید کے لئے کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ وبن سے اکھاڑ دیتی ہے۔ مرزا قادیانی کا ان امراض میں مبتلاہونا خود ان کی، ان کے صاحبزادوں کی اور ان کے متبعین کی تحریروں سے ثابت ہے۔ پھر ان کی دماغی صحت کا حال خود ان کی تحریریں پڑھ کر واضح ہے۔ ایک