اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنارکھا ہے۔ یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے۔…… وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدا تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور سڑکوں کو خس وخاشاک سے صاف کردیں گے اور کج اور ناراست کا نام ونشان نہ رہے گا اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست ونابود کردے گا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۰۵،خزائن ج۱ص۶۰۱حاشیہ)
’’انی متوفیک ورافعک الّی وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامہ‘‘میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھائوں گا اور جو لوگ تیری متابعت اختیار کریں یعنی حقیقی طور پر اﷲ ورسول کے متبعین میں داخل ہوجائیں ان کو ان کے مخالفوں پر کہ جو انکاری ہیں قیامت پر غلبہ بخشوں گا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۲۰،خزائن ج۱ص۶۲۰حاشیہ)
مندرجہ بالا نمبر۱،۲ تو قرآن کریم کی آیات ہیں جن کے رو سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور آئیں بھی جلالی طور پر نہ کہ جمالی طور پر۔ اس وقت دنیا سے کج اور ناراستی کا نام ونشان مٹ جائے گا۔
۳… مرزا قادیانی کا الہام ہے۔ اس میں متوفیک کے معنی پوری نعمت دوں گا کئے گئے ہیں۔ گویا توفی کے معنے پورا دینا ہیں۔ مرزا قادیانی پر یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جوایک زمانہ دراز ہے۔ بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شد ومد سے براہین میں مسیح موعود قراردیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا۔‘‘ ’’میں براہین کی اس وحی کو نہ سمجھ سکا کہ وہ مجھے مسیح موعود بتاتی ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ص۱۱۴)
مطلب یہ کہ مرزا قادیانی باوجود نبی اور رسول ہونے کے بارہ سال تک ازروئے قرآن مجید حضرت عیسیٰ کی حیات اور آمد ثانی کے قائل رہے۔ ’’رسمی عقیدہ پر جمارہا‘‘ نہیں بلکہ آپ نے تو قرآن مجید کی آیات پیش کرکے لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور یہ وہی تفہیم ہے جو الرحمن علم القرآن کے ماتحت ہے۔ قرآن کریم کی نسبت تو