فرماتے تھے۔ حضور کو چونکہ دورۂ مرض کے وقت اکثر مشک ودیگر مقوی دل ادویات کی ضرورت رہتی تھی۔ جو اکثر میری معرفت جایا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ حضور کو اگر مفرح عنبری موافق آجائے اور مفید ہو تو کیا ہی اچھا ہو۔ بہت سا روپیہ حضور کا دوسری ادویات پر خرچ ہونے سے بچ جائے۔ لہٰذا ایک دفعہ میں نے دوسری ادویات کے ساتھ ہی ایک ڈبیہ مفرح عنبری کی بھی خدمت میں بھیج کر استعمال کے لئے عرض کی اور ساتھ ہی عرض کردیا کہ اگر حضور کو یہ موافق آجائے تو میں ہمیشہ اس خدمت کو اپنا فخر سمجھوں گا اور میری دلی خواہش ہے کہ یہ حضور کے استعمال میں رہے۔ پس اﷲ تعالیٰ کا بے اندازہ فضل ہوا اور میری خواہش پوری ہوئی کہ وہ مفید اور مقبول ہوئی اور آٹھ روز کے اندر ہی حضور نے میرمہدی حسین کو بھیج کر ایک ڈبیہ مفرح عنبری اور طلب فرمائی اور اس کی قیمت پانچ روپے بھی بھیج دی جو میں نے دست بستہ عرض کرکے مفرح عنبری کے ساتھ ہی حضور کو بھیج دئیے۔ تاآخر خط۔ (خطوط امام بنام غلام ص۸،۹)
’’بسم اﷲ الرحمن الرحمن۰ یاایھا النبی قل الازواجک ان کنتن تردن الحیاۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراجاً جمیلا۰ وان کنتن تردن اﷲ ورسولہ والدارالاخرۃ فان اﷲ اعدللمحسنات منکن اجراً عظیما۰احزاب:۲۸،۲۹‘‘
اے نبی کہہ بیبیوں اپنی کے، اگر ہو تم ارادہ کرتیاں زندگانی دنیا کا اور بنائو اس کا پس آئو کہ کچھ فائدہ دوں تم کو اور رخصت کردوں میں تم کو رخصت کرنا اچھا۔ اگر ہو تم ارادہ کرتیاں خدا کا اور رسول اس کے کا اور اگر گھر پچھلے کا پس تحقیق اﷲ نے تیار کیا واسطے نیکی کرنے والیوں کے تم میں سے ثواب بڑا۔
جب مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہونے سے مال ہاتھ آیا اور آسودہ حال ہوگئے تو حضرت رسول خداﷺ کی بعض بیبیوں نے بھی دنیا کے مال واسباب کی خواہش کی۔ اس پر آپؐ ناخوش ہوئے اور قسم کھائی کہ ایک ماہ تک گھر تشریف نہ لائیں گے اور آپؐ نے ایک حجرہ میں علیحدہ رہ کر ایک ماہ گزارا اور ۲۹دن کے بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپؐ گھر میں تشریف لائے اور سب سے پہلے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ میں تجھ سے ایک بات کہتاہوں تم جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔ بلکہ اپنے ماں باپ سے اس میں مشورہ کرکے جواب دینا۔ عائشہؓ نے عرض کیا کہ فرمائیے۔