ذبح کرنے کا حکم فرمایا تھا اور حضرت خلیل علیہ السلام نے اس حکم کی پوری پوری تعمیل کی تھی۔ اسی طرح اگر جناب محمدﷺ اپنے صحابہؓ کی آزمائش کے لئے حکم دے دیتے کہ مجھے ایک نوجوان لڑکے کے گوشت یا خون کی ضرورت ہے۔ کون لائے گا تو یقین جانئے گا کہ حضورﷺ کے اصحاب میں سے جن کے ہاں لڑکے تھے سب ہی اپنے لڑکوں کو قتل ہونے کے لئے پیش کردیتے اور ایک بھی پیچھے نہ رہتا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بیٹے حضرت عبدالرحمن جب ایمان لائے تو ایک دن والد ماجد سے کہنے لگے۔ اباجان فلاں جنگ میں آپ میری زد کے نیچے آگئے تھے۔ اگر میں اس وقت چاہتا تو آپ کو قتل کردیتا۔ حضرت صدیقؓ نے فرمایا۔ بیٹا اگر اس جنگ میں تو میری زد کے نیچے آجاتا تو میں ضرور ہی تجھ کو بوجہ تیرے کفر کے قتل کردیتا۔ یعنی محمد کے دشمن کو کس طرح چھوڑ دیتے۔ قرآن مجید میں ہے۔ ’’قل ان کان اٰباء کم وابناء کم (توبہ:۲۴)‘‘ معہ ترجمہ پڑھو۔ پس حضورﷺ کسی مالی کمی کی وجہ سے بھوکے پیاسے نہیں رہتے تھے اور نہ ہی اس لئے شکم مبارک پر پتھر باندھتے تھے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں۔ قسم ہے خدا کی اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے۔ (پیارے نبیؐ کے پیارے حالات ص۱۷)
نوے ہزار درہم حضورﷺ کی خدمت میں آتے ہیں۔ حضورﷺ اس نوے ہزار کو تقسیم کرکے چین لیتے ہیں۔ اتفاقاً اگر کوئی رقم قابل تقسیم کبھی بوجہ نہ ملنے سائل کے باقی رہ جاتی۔ تو جب تک وہ کل خرچ نہ ہوجاتی۔ حضورﷺ گھر تشریف نہ لے جاتے اور مسجد میں رات بسر فرماتے۔
ایک دفعہ ایک شخص خدمت اقدس میں آیا ار دیکھا کہ دور تک آپﷺ کی بکریوں کا ریوڑ پھیلا ہوا ہے۔ اس نے آپﷺ سے درخواست کی اور آپﷺ نے سب کی سب اسے دے دیں۔ اس نے اپنے قبیلہ میں جاکر کہا۔ اسلام قبول کر لو۔ محمدﷺ ایسے فیاض ہیں کہ مفلس ہو جانے کی پرواہ نہیں کرتے۔ (سیرۃ النبی ج۲ ص۲۴۵)
غرضیکہ دست مبارک سے لاکھوں اور کروڑوں روپے تقسیم فرمائے۔ پھر یہ گمان کرنا کہ حضورﷺ نے بوجہ افلاس شکم مبارک پر پتھر باندھے۔ نہایت ہی نامناسب بلکہ حضورﷺ کی شان والا شان کے خلاف ہے۔ آپؐ کا یہ فقروفاقہ اختیاری تھا۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ووجدک عائلا فاغنیٰ (الضحیٰ:۸)‘‘ پس جس کو اﷲتعالیٰ غنی کردے اس سے برھ کر اور کون غنی ہوسکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ حضورﷺ نے خود فرمایا ہے۔ محمد اور محمد کی آل کے لئے دنیا لائق