الراغب الاصفہانی المتوفی ۵۰۲ھ بہت بڑے عالم ہیں۔ ان کی کتاب الذریعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا شمار علم الاخلاق کے اساتذہ میں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن انہوں نے چونکہ قرآن حکیم کی تفسیر اور اس کے لغت پر بھی خصوصیت سے قلم اٹھایا ہے۔ اس لئے ان کی شہرت لغت نگار ہی کی حیثیت سے ہوئی۔ انکا کہنا ہے: ’’وخاتم النبیین لا نہ ختم النبوت ای تممھا بمجیئہ‘‘ {آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ نے نبوت کو کمال وتمام تک پہنچادیا۔}
الفیروز آبادی المتوفی ۸۱۷ھ تیمور لنگ اور بایزید عثمانی کے معاصر ہیں۔ ان کی کتاب ’’القاموس‘‘ لسان کے بعد دوسری کتاب ہے۔ جس کو قبول عام کی سند ملی ہے۔ یہ فرماتے ہیں: ’’والخاتم اٰخر القوم کالخاتم ومنہ قولہ تعالیٰ وخاتم النبیین‘‘ {خاتم کے معنی آخر قوم کے ہیں۔ جیسے مہر، خط کے آخر میں لگائی جاتی ہے۔ خاتم النبیین کے بھی یہی معنی ہیں۔} اس حوالے میں غور طلب حقیقت یہ ہے کہ مہر کو جن معنوں میں خاتم سمجھا جاتا ہے وہ وہ ہرگز نہیں ہے۔ جس کو مرزائیت کی اپج نے پیدا کیا ہے کہ ایسی نبوت آفریں کہ جس سے چھو جائے وہ نبی ہو جائے۔
سید مرتضیٰ الزبیدی المتوفی ۱۲۰۵ھ یہ قاموس کے مشہور شارح ہیں۔ لین نے اپنی ڈکشنری میں زیادہ تر استفادہ انہیں سے کیا ہے۔ ان کی تصریحات ملاحظہ ہوں: ’’ومن اسمائہ علیہ السلام الخاتم والخاتم وھو الذی ختم النبوۃ بجیئہ‘‘ {اور آپ کے ناموں میں خاتم وخاتم بھی ہے اور وہ وہ ہے جس نے اپنی آمد سے نبوت کے آئندہ امکانات کو روک دیا۔}
ابوالبقاء الحسینی المتوفی ۱۰۹۴ھ انہوں نے مصلحات عربیہ پر ایک مستند کتاب لکھی ہے جو کلیات ابی البقاء کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں یہ صراحت سے مذکور ہے کہ: ’’وتسمیۃ نبینا خاتم الانبیاء لان الخاتم اخر القوم‘‘ {ہمارے پیغمبر کو خاتم الانبیاء اس مناسبت سے کہاگیا ہے کہ خاتم کہتے ہیں سب سے آخری کو۔}
بحث کو ختم کرنے سے پہلے فرزدق کے اس مشہور قصیدے میں سے ایک شعر جو اس نے ہشام بن عبدالملک کے سامنے حضرت حسینؓ کے جلیل القدر بیٹے زین العابدین کی تعریف میں پڑھا۔ ہم پیش کرنا چاہتے ہیں جو اس بات میں بیت القصیدہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قصہ دل چسپ ہے۔ سن لیجئے۔ ہشام شام کے امراء کے لاؤ لشکر کے ساتھ اپنے بھائی ولید کی خلافت