ص۳۲۱، خزائن ج۲۳ ص۳۳۶) سے لے کر میں درج ذیل کرتا ہوں۔ ’’ایساہی کئی اور دشمن مسلمانوں میں سے میرے مقابل پر کھڑے ہو کر ہلاک ہوئے اور ان کا نام ونشان نہ رہا۔ ہاں آخری دشمن اب ایک اور پیدا ہوا ہے جس کا نام عبدالحکیم خاں ہے اور وہ ڈاکٹر ہے اور ریاست پٹیالہ کا رہنے والا ہے۔ جس کا دعویٰ ہے کہ میں اس کی زندگی میں ہی ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جاؤںگا اور یہ اس کی سچائی کے لئے ایک نشان ہوگا۔ یہ شخص الہام کا دعویٰ کرتا ہے اور مجھے دجال اور کافر اور کذاب قرار دیتا ہے۔ پہلے اس نے بیعت کی اور برابر ۲۰برس تک میرے مریدوں اور میری جماعت میں داخل رہا۔ پھر ایک نصیحت کی وجہ سے جو میں نے محض لللّٰہ اس کو کی تھی مرتد ہوگیا۔ نصیحت یہ تھی کہ اس نے یہ مذہب اختیار کیا تھا کہ بغیر قبول اسلام اور پیروی آنحضرتﷺ کے نجات ہوسکتی ہے۔ گو کوئی شخص آنحضرتﷺ کے وجود کی خبر بھی رکھتا ہو۔ چونکہ یہ دعویٰ باطل تھا اور عقیدہ جمہور کے بھی برخلاف۔ اس لئے میں نے منع کیا۔ مگر وہ باز نہ آیا۔ آخر میں نے اس کو اپنی جماعت سے خارج کردیا۔ تب اس نے یہ پیش گوئی کی کہ میں اس کی زندگی میں ہی ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک اس کے سامنے ہلاک ہو جاؤں گا۔ مگر خدا نے اس کی پیش گوئی کے مقابل پر مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور خدا اس کو ہلاک کرے گا اور میں اس کے شر سے محفوظ رہوںگا۔ سویہ وہ مقدمہ ہے جس کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کی نظر میں صادق ہے خدا اس کی مدد کرے گا۔‘‘
اس مقابلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزاقادیانی ڈاکٹر صاحب کی بتائی ہوئی مدت کے اندر اندر ہی (۲۶؍مئی ۱۹۰۸ئ) کو فوت ہوگئے اور ڈاکٹر صاحب میرے علم کے مطابق ۱۹۱۹ء تک زندہ سلامت رہے۔ مجھے ان کی تاریخ وفات محفوظ نہیں۔ لیکن اس کا علم غیر ضروری ہے اور اس مبحث سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
ششم… طاعون: مرزاقادیانی کی زندگی میں پنجاب میں مرض طاعون نے وباء کی صورت اختیار کر لی۔ اس پر مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (تتمہ حقیقت الوحی ص۵۲، خزائن ج۲۲ ص۴۸۶) پر لکھا کہ: ’’خدا نے اپنی سنت کے مطابق ایک نبی کے مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا اور جب وہ نبی مبعوث ہوگیا اور اس کی قوم کو ہزارہا اشتہاروں اور رسالوں سے دعوت کی گئی۔ تب وہ وقت آگیا کہ ان کو اپنے جرائم کی سزا دی جائے۔‘‘
جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مرزاقادیانی کی نبوت کا انکار کر کے لوگ مبتلائے عذاب