گواہ شد محمد سرور وابو سعید عفی عنہ۔ خاکسار محمد احسن بحکم حضرت امام الزمان۔
بس اب ناامیدی ہوگئی تو میں اپنے مصاحبوں سے یہ کہتا ہوا چلا آیا ؎
ہمہ شوق آمدہ بودم ہمہ حرمان رفتم
مولانا صاحب آگے چل کر رقم فرماہیں ؎
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
بلا یہ کون لیتا جان پر لیتے تو ہم لیتے
میرا روئے سخن مرزاقادیانی کے ساتھ اور بزرگان علمائے کرام کے بعد شروع ہوا۔ مگر کیفیت میں ان سے بڑھ گیا تھا۔ اس لئے مرزاقادیانی نے آخری نظر عنایت جو مجھ پر کی خود انہی کے لفظوں میں درج ذیل ہے فرماتے ہیں۔
مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ
’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۰ یستنبؤنک احق ھوقل ای وربی انہ الحق‘‘ بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ، مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں مردود، کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور بہت سے میرے پر حملے کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہوسکتا۔ اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہرپرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤںگا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہوجاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہے۔ تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اﷲ کے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیںگے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ