خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
|
لیکن یاد رکھنا ! بوڑھیا کے ہاتھوں کا کاتا ہوا سوت جیسے بوڑھیا یوسف کے نیلام میں اور یوسف کی بولی میں بولنے جارہی تھی …… جب حضرت یوسف ؑ کا نیلام ہورہا تھا مصر کے بازار میں ، تو جو جانتے تھے یوسف ؑ کے حسن کو انہوں نے تو یوسف ؑ کی بولی بولنے کے لئے تیجوریوں کے دروازے کھولدئے تھے ، اپنے خزانوں کی چابیاں پھینک دی تھی ……… کہ جس قیمت پر یوسف ؑ ملے اس کا سودا کرنے کو ہم تیار ہیں ، یاد رکھنا ! خدا ہم پر دعوت کا حسن کھولے … خدا ہم پر دعوت کی عظمت کو کھولے …خدا ہم پر دعوت کی بلندی کو کھولے … خدا دعوت کی اہمیت کو کھولے… خدا ہم پر دعوت کی ضرورت کو کھولے … اور دعوت نہ ہونے کے نقصان کو خدا ہم پر کھول دے توکیا تیجوریوںکے منہ؟ … اور کیا تیجوریوں کے دروازے؟ … اور کیا اشرفیوں کی تھیلیوں کے منہ! … ارے خدا ہمیں سمجھ دے دے … ہم زندگیاں کھپانے کو تیار ہوجائیں۔ جب لوگ بولی بول رہے تھے، ایک بوڑھی عورت اپنے ہاتھ کا کاتا ہوا سوت لے کے جارہی تھی …… جوان ہوتے ہی ہیں … انہیں چھیڑنے کی عادت ہوتی ہے۔ بڑی بی ! بڑی بی ! کہاں جارہی ہو؟ بیٹے! یوسف کی بولی بولی جارہی ہے، نیلام ہورہا ہے،ہراجی (نیلام) میں جارہی ہوں، میں بھی بولی بولوں گی۔ اچھا! بولی بولنے کو کیا ہے تمہارے پاس؟ کہنے لگی بیٹے! میں نے بڑی محنت سے اپنے ہاتھ سے سوت کاتا ہے، اسی کو پیش کروں گی جوان کہنے لگے۔ بڑی بی! تم نے یوسف کو کیا سمجھا! یہ تمہارے ہاتھ کا کاتا ہوا سوت اس کی قیمت بن