خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
|
ہنداشت ستمگر کہ جفا برمن کرد بروبماند، وبرما بگذشت تلخی و خوشی و زیست و زیبا چوں باد صبا بصحرا بگذشت یہ تلخی و شیرنی …… یہ زندگی و موت …یہ زیب و زینت …یہ اٹھاپٹک … اور یہ اکھاڑ پچھاڑ … یاد صبا کی طرح ہے جو جنگلوں پر سے صبح سویرے گذر جاتی ہے۔ جب کوئی کسی پر زیادتی کرتا ہے … جب کوئی کسی پر ظلم کا ہاتھ دراز کرتا ہے، اور ظلم صرف ہاتھوں سے نہیں ہوتا یہ بھی سن لو … ظلم زبانوں سے… ظلم ہاتھوں سے ۔ ظلم پیروں سے … ظلم دماغوں سے ظلم اسکیم و پلاننگ سے … ظلم منصوبوں سے نہ جانے ظلم کن کن راستوں سے ہوتا ہے اسی لئے قرآن کہتا ہے اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْماً جَہُوْلًا پرلے درجہ کا ظالم، طلم کی جتنی قسمیں سوچی جاسکتی ہیں وہ ساری آدم کے اس بچے میںپڑی ہوئی ہیں۔ ابراہیم ابن مامون رشید شاہی دسترخوان پر بیٹھ گئے، اور شاہی دسترخوان کی قسمیں … یہ کھانا اور وہ کھانا، یہ نعمت اور وہ نعمت۔ لیکن … نگاہوں میں وہ تھیلا … روٹی کے وہ سوکھے ٹکڑے … وہ کٹورے کاپانی … وہ مٹی پر لیٹنا … اس کا وہ جواب دینا … ایسا منظر سامنے کھلا ہوا ہے۔ اور ایسا سماں نگاہوںکے سامنے بندھا ہوا ہے کہ ابراہیم کا ہاتھ کسی ڈش کی طرف اور کسی پلیٹ کی طرف بڑھ نہیں رہا ہے، … بہت دیر تک خلیفہ کے ساتھ بیٹھا رہا … بغیر کوئی لقمہ لئے … بغیر کوئی چیز چھکے…اٹھ کر آگیا