خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
|
علماء کرام نے شکر کے تین درجے لکھے ہیں۔ سب سے پہلا درجہ … نعمت پر دل سے اس کی عظمت، اے اللہ میں تو گھونٹ پانی کا مستحق نہیں… میں ایک دانہ کا حقدار نہیں… صرف تیرا کرم ہے …تو نے کھانے کو دیا …پینے کو دیا … آنکھیں دیں، … ہاتھ دئے۔ پیر دئے … زبان دی، دل و دماغ دیا … اللہ تیرا شکر ہے … دل میں عظمت ہو اللہ کی دی ہوئی نعمتوںکی۔ زبان سے شکر دوسرا درجہ ہے کہ اللہ تیسرا شکر ہے … اللہ تیرا شکر ہے۔ تیسرا جو اصلی اور حقیقی درجہ ہے شکر کا … وہ یہ ہے کہ ہر نعمت کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس نعمت سے متعلق اللہ کا حکم کیا ہے اور حضرت محمدؐ کا اس نعمت کے استعمال کا طریقہ کیا ہے، ان دونوں کی رعایت کے ساتھ نعمت کا استعمال یہ صحیح شکریہ ہے اسی شکر پر حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے نعمتوں کے دہانے کھلتے ہیں۔ اور جہاں قرآن نے شکر پر نعمتوں کے اضافے کو بتایا وہیں ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِی لَشَدِیْدٌکہ ہم ناقدریوں پر نعمتوں کو چھین لیا کرتے ہیں اور ہمارا عذاب بڑا سخت ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا ارشاد ہے کسی نعمت کے زوال کے لئے اس کی ناقدری سے بڑا کوئی سبب نہیں ہے۔ نعمتیں کتنی ہیں ؟ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَاتُحْصُوْھَا،اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے۔ اپنا وجود اللہ کا انعام ہے … زمینیں… آسمان …چاند …سورج … ستارے …ماں باپ کا سایہ … اچھے پڑوسی… اچھا ماحول… اور کوئی اپنے کو بھلی راہ چلاتا ہے اس کے لئے اس محنت کا وجود … علماء ہمارے پاس … مدارس ہمارے پاس۔