مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
سانس ہے ایک رہر و ملکِ عدم دفعتاً اک روز یہ جائے گا تھم ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے کرلے جو کرنا ہے آخر موت ہے ۳۔ جب موت یقینی ہے تو ہر دو تعلق رشتہ والوں میں سے کسی نہ کسی ایک کو دوسرے کا صدمۂ جدائی برداشت کرنا لا بُدی ہے۔ شوہر کی موت سے بیوی کو، والد کی موت سے لڑکے کو اور بھائی بہن کی موت سے بہن بھائی کو،اسی طرح اس کا عکس کرلیا جاوے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر کسی کو اختیار دے دیا جاتا موت کا تو کوئی کبھی اس نوع کے صدمے کے لیے تیار نہ ہوتا،اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا معاملہ اپنے ہی قبضے میں رکھا یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ۔ ۴۔ اس صدمۂ جدائی کا تحمل واقعی دشوار تر ہوجاتا اگر کچھ تعلیمات و ہدایات نہ ہوتیں۔ چناں چہ کچھ تو علاج الغم والحزن میں مذکور ہیں ان کو بھی پڑھ لیجیے، کچھ اس عریضے میں معروض ہیں۔اسی سلسلے میں ایک دیہات کے رہنے والے بزرگ جو زیادہ علم والے نہیں تھے ان کی تعزیت کا خلاصہ عرض ہے جو انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں ان کے والد کی وفات پر پیش کی تھی، وہ یہ ہے: وَخَیْرٌ مِّنَ الْعَبَّاسِ اَجْرُکَ بَعْدَہٗ وَاللہُ خَیْرٌ مِّنْکَ لِلْعَبَّاسِ یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر صبر کرنے پر آپ کو اجر ملے گا۔غور کیجیے اجر یعنی خوشنودئ باری تعالیٰ زیادہ بہتر ہے یا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آپ کے پاس رہنا؟جواب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا بہتر ہے ۔ دوسرے مصرعہ میں فرماتے ہیں کہ حضرت عباس یہاں سے رخصت ہوکر عالمِ آخرت میں پہنچے جن پر اللہ تعالیٰ کے خاص انعام و اکرام ہورہے ہیں اب آپ بتلائیے کہ آپ حضرت عباس کے لیے زیادہ بہتر ہیں یا اللہ تعالیٰ کے انعامات؟ جواب ظاہر ہے کہ