مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
۴)تبلیغ یا خدمتِ دین کا اصل ثمرہ نجاتِ آخرت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو سمجھے، اور اس کے اثر و نفع کو مقصود نہ جانے۔ اگر کسی جگہ نفع محسوس نہ ہو یا کم ہو تو اس سے بددل نہ ہو۔ کیوں کہ اپنا کام سعی و کوشش ہے دوسروں کا ماننا اپنے اختیار میں نہیں، اور غیر اختیاری باتوں کے پیچھے پڑنا اپنے کو تشویش میں ڈالنا ہے۔ اجر و ثواب محض اس سعی و کوشش پر ہے جو اخلاص سے ہو۔ اس بات کو خوب پختہ کرلیا جائے۔ اس بات میں جتنی پختگی ہوگی اتنی ہی سعی و کوشش میں مضبوطی اور دوام ہوگا۔ ۵)اپنے کومثل تیمار دار کے اور جن کو دین کی طرف متوجہ کررہا ہے مثل بیمار کے خیال کرے اور بات چیت میں لب و لہجہ نرم ہو۔(مستحب ہے) ۶)لوگوں کے اثر قبول نہ کرنے سے معمولی رنج ہونے میں مضایقہ نہیں، بلکہ یہ شفقت کی نشانی اور محمود ہے۔ لیکن زیادہ رنج کرنا اور ہر وقت اپنے کو فکر میں گھلانا کہ فلاں جگہ کے لوگ درست ہی ہوجاویں یہ حالت ظاہراً بہتر معلوم ہوتی ہے مگر حقیقتاً مناسب و پسندیدہ نہیں۔لہٰذا اس سے اجتناب کریں۔(جیسا کہ شیخنا جامع المجدّدین حکیم الامت مولانا تھانوی نوراللہ مرقدہ ٗنے اس پر متنبہ فرمایا ہے۔ ۷)ایک اہم ادب یہ بھی ہےکہ مستحبات میں مطلقاً نرمی سے کہے اورواجبات میں اوّلاً نرمی اور پھر سختی سے کہے اگر مصلحت ہو، ورنہ احتراز کرے اور دعا کرے۔ اسی طرح اوّلاً منکر (بُرے کام) کے مبتلا کو تنہائی میں سمجھاویں۔ اگر وہ نہ قبول کرے تو اس بات کی بُرائی عام خطاب و عنوان سے ظاہر کریں تاکہ لوگ اس کی مضرّت سے واقف ہوجاویں۔ اور کسی کے عمل اور فعل سے دھوکے میں نہ پڑیں۔ خاص خطاب سے مجمعِ عام میں نہ کہے۔ تبلیغ کی بابت مزید معلومات ا شرف الہدایات میں دیکھی جاویں۔ یہاں ضروری اور مختصر ہدایات پر اکتفا کیا گیا ہے۔ حصۂ اوّل کی ہدایت نمبر ۱۷ کو خوب ذہن میں جمالیں۔ ۸)رات کو سونے سے قبل خود اپنے دن بھر کے کام نیز خدمتِ دین اور تبلیغ کے کاموں پر نظر ڈال لیا کرے کہ کیا کیا کوتاہیاں ہوئیں۔ اگر کوتاہیاں معلوم نہ ہوں تو شکر