مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کہ اگر کوئی فوج یا پولیس کا سپاہی اپنی خاص وضع یا وردی چھوڑ دے خصوصاً ڈیوٹی کے وقت لباس کو چھوڑ دیتا ہےتو وہ کس قدر مستوجبِ سزا ہوگا اگرچہ اپنے کام میں فرق نہ آنے دے ۔ اسی طرح مسلمان بھی اسلام کا سپاہی ہے اور سوتے جاگتے دن رات گویا ہر وقت ’’ڈیوٹی‘‘ ہی پر ہے۔ لہٰذا ایسا کرنا ذرّہ برابر عقل کی بات نہیں ہے۔اور سوچے کہ جب اس کو خود اپنی مسلمان بہن کا دوپٹا اوڑھنے سے شرم آتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ غیرو ں یا اللہ تعالیٰ کے باغیوں کی پسندیدہ وضع و لباس سے شرم و غیرت نہیں آتی۔ جس طرح مرد ہوکر عورت سے تشبہ منع و حرام ہے اسی طرح مسلمان ہوکر غیر مسلموں کی وضع سے بھی بچنا اور توبہ ضروری ہے۔ اس کے بعد بھی اگر ہمّت نہ ہو توبہ کی اور توبہ پر استقامت کی تو کسی مصلح سے اپنا حال عرض کرکے تدبیرِ اصلاح معلوم کرے اور اس پر عمل کرے۔ اس تحریر کے بعد حضرتِ اقدس مجدّدِ اعظم مولانا تھانوی نوراللہ مرقدہٗ کا ملفوظ نظر سے گزرا ہے ۔بے اختیار جی چاہا کہ اس کو نقل کردوں۔ حضرت فرماتے ہیں: ’’بزرگوں نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ متشبہّ بالصو فی (یعنی صوفیا کی نقل کرنے والے) کی بھی قدر کرو، کیوں کہ اس نے طریق کو معظم تو سمجھا تب ہی تشبہ اختیار کیا ،اور یہ ہے راز تشبہ بالکفار (کافروں کی طرح اپنی وضع و لباس بنانا) کے مذموم ہونے کا کہ وہ علامت ہے کفر اور کافروں کی عظمت کی، اس لیے حدیث میں جناب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَمِنْھُمْ؎ (یعنی جس نے کفار (یا کسی قوم) کی کسی مخصوص شئے کو اختیار کیا سو اس کا شمار ان ہی میں ہوگا۔)جس درجے کی وہ شئے ہے اسی درجے کی معصیت ہوگی (تفصیل حیٰوۃ المسلمین کی سب سے آخری روح میں ضرور دیکھی جائے) کیوں کہ بغیر اعتقادِ عظمت کے تشبہ نہیں ہوسکتا، اور کفار کی عظمت کا اعتقاد حرام ہے اسی طرح حضرات صوفیا کا یہ فرمانا کہ متشبہّ بالصوفی کی بھی قدر کرو۔ اس کی بنا یہی ہے کہ اس ------------------------------