مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
وضروری نہیں،جس کو جو طریق آسان و مفید نظر آتا ہو اس کو اختیار کرے۔ البتہ دین کےاُصول اور تبلیغ کی حدود کا لحاظ رکھنا ہر جماعت اور ہر کام کرنے والے کے ذمے ضروری ہے۔ کیوں کہ تبلیغ کسی صورت میں واجب ہوتی ہے ، کسی صورت میں مستحب اور بعض صورتوں میں ممنوع تک ہوجاتی ہے ۔تبلیغ کہاں واجب ہے، کہاں مستحب اس کا جاننا مُبلّغین کے ذمّے ضروری ہے تاکہ بے اعتدالی یا حدود سے نکل کر اُلٹے غُلو فی الدین کے گناہ میں مبتلا نہ ہوجائیں۔اس کے متعلق بھی حضرت حکیم الامت مجدّدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اصلاحِ انقلاب جلدِ اوّل‘‘ میں تنبیہ فرمائی ہے جو بہت اہم ہے۔ اسی لیے حضرت کے الفاظ نقل کیے جاتے ہیں: ’’البتہ عام احتساب یہ خاص ہے علماء کے ساتھ، اور عوام کی تصدّی اس کے لیے اکثر موجبِ فتنہ و عداوت ہوجاتی ہے۔ نیز عوام اکثر احتساب کے حدود بھی نہیں جانتے اس لیے غلو فی الدین کی نوبت آجاتی ہے۔ نیز اکثر عوام نفس کو مہذّب کیے ہوئے نہیں ہوتے اور ان کے احتساب میں بکثرت نفسانیت ہوتی ہے اس معنیٰ کے افادہ کے لیے بعض مفسّرین نے وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ میں مِنْ کو تبعیضیہ کہا ہے ۔ الخ‘‘ اس ناکارہ نے متعدّد جگہ اور ایسے حضرات جو عرصے سے تبلیغِ عام میں مشغول تھے ان کی تبلیغ میں ایسے مفاسد کا خود مشاہدہ کیاجن کا تذکرہ ’’اصلاحِ انقلاب ‘‘میں حضرت مجدّدِ اعظم نے فرمایا ہے۔ اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ کچھ ایسے ضروری اُمور پیش کردیے جاویں جن سے تبلیغِ عام کے ساتھ عوامی تبلیغ کی ان مضرّتوں سے حفاظت ہو۔ نیز حضرت مجدّدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی عوامی تبلیغ سے ممانعت اور تبلیغِ عام کی اجازت سے جو ظاہری طور پر تضاد کا شبہ ہوسکتا ہے وہ بھی دور ہوجائے۔ تبلیغِ عام کی اہمیت کا حاصل یہ ہے کہ صرف علماء پر یہ بار نہ رکھا جاوے بلکہ غیر علماء بھی اس میں شریک ہوں اور اس طور پر شریک ہوں کہ عوامی تبلیغ کی مضرّتوں سے حفاظت بھی رہے، جس کا طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ تبلیغ کے حدود اور آداب کا علم حاصل کرلیا جائے اور ان حدود کے ساتھ کام لیا جائے۔ اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ نماز،