مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
شام کی گفتگو بھی کتابوں میں شایع کی جاتی ہے۔اگر ایسے عالم کے اُصول اور ان کی تصنیف وارشاد کے اندر کوئی شخص کوئی کمی یا اضافہ کرتا ہے تو سینکڑوں ا ن کے ماننے والے اس کی تردید کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، ایک عالم کے مذاق اور مسلک اور اُصول کی حفاظت کی تو یہ شان ہو پھر قیاس کیجیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور معمولات،آپ کےاُصول و مذاق کی حفاظت کا کیا عالم ہوگا جب ان کے ادنیٰ غلاموں کا یہ حال ہے! حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ترجیح الراجح دیکھ کر ایک بڑے عالم نے کہا: ان کے حق پرست ہونے کی یہی بڑی دلیل ہے۔ کتاب التشرف فی احادیث التصوف میں ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا ایک بہت پُرانا معمول اس حدیث کو دیکھتے ہی تبدیل فرمالیا: بِالدَّاخِلِ دَھْشَۃٌ فَتَلَقَّوْہُ بِمَرْحَبَا؎ پہلے ہر آنے والے کے ذمے حضرت والا نے یہ اُصول رکھا تھا کہ وہ آتے ہی اپنا نام اور کام وطن اور مدتِ قیام وغیرہ خود ظاہر کردے لیکن اس حدیث سے کہ آنے والے کو خوف و ہراس ہوتا ہے پس اس سے کشادہ روی سے ملو تو حضرت والا نے خود دریافت کرنا شروع کردیا۔ کیا شان تھی اتباعِ سنّت کی! ارشاد فرمایا کہ ہر انسان کے جملہ عضو گو الگ الگ خدمت انجام دے رہے ہیں مگر کوئی انسان اپنے کسی عضو کو حقیر نہیں سمجھتا اور نہ ان کے خدمات کے اندر تفاضل اور تقابل کرتا ہے اور نہ ایک دوسرے کا حریف اور فریق بناتا ہے، اسی طرح دین ایک جسم ہے اس کے اجزاء الگ الگ ہیں، کوئی تعلیم کے لیے مدرسے میں لگ گیا، کوئی تبلیغ میں لگ گیا، کوئی تزکیہ کے لیے خانقاہ میں لگ گیا پس دین کے ہر جزو کے خادموں کو آپس میں ایک دوسرے کو حقیر سمجھنے کا حق کیسے ہوگا اور آپس میں تفاضلو تقابل اور فریق وحریف بنانا کیسے صحیح ہوگا؟ یہی وجہ ہے مخلصین اولیائے کرام نے ہر دین کے خادم کا اکرام کیا ہے۔ وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ ؎ کا حکم دیا گیا ہے۔ پس ہر ایک دوسرے کی نصرت کرے جس قدر ممکن ہو۔ ہماری تقریر ہو، ہمارا مدرسہ چلے، ہماری جماعت آگے ------------------------------