مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
سوچے کہ دین سکھانے کے وقت یہ بات ذہن میں محفوظ رہے۔ ۲۷) تبلیغ ووعظ و نصیحت کے وقت اور قبل و بعد اس دعا کا اہتمام رکھے :’’اے اللہ! اس وعظ و نصیحت و تبلیغ میں ریا، عُجب و تکبر اور ہر قسم کے شر سے مجھے اور سامعین کو محفوظ فرما اور اس کی خیر سے مجھے اور سامعین کو نفع اٹھانے والافرما۔‘‘ ۲۸) یہ خوب ذہن نشین کرلیا جاوے کہ نظامِ سنت کے علاوہ کوئی نظام تبلیغ وغیرہ مقصود نہیں، لہٰذا اس کو مقصود سمجھنا (جو اس میں مشغول نہ ہو اس کو تبلیغ کرنے والا نہ سمجھنا) یہ صریح حدود سے تجاوز اور بدعت ہے۔البتہ اگر کسی نظام میں اُصول و حدودِ دین کے خلاف کوئی بات ہو تو وہ قابلِ اصلاح ہے،اس نظام کے منتظمین کو اصلاح طلب اُمور سے مطلع کرنا عملِ خیر ہے۔ اگر کسی دوسرے نظام میں کوئی دینی خرابی نہ ہو پھر بھی اس سے انقباض ہو گرانی ہو کہ یہ کام کیوں جاری ہوا، یہ بھی حدود سے تجاوز ہے، اور نشانی ہے عدم اخلاص کی، ایسوں کو اپنی اصلاح کا اہتمام ضروری ہے۔اور آج کل یہ مرض بہت عام ہے الّاماشاء اللہ ۔ ہاں! یہ ضروری نہیں کہ اس نظام میں شریک ہو۔ جس نظام سے جس کو مناسبت ہو اس کو اختیار کرے اس میں کوئی حرج نہیں۔ ۲۹) وعظ و تبلیغ و نصیحت سے قبل صحیح علم اس بات کا ضرور حاصل کرلینا چاہیے۔جس کا ذریعہ محققین علما کی کتب یا ان سے زبانی دریافت کرنا ہے ورنہ غلط بات کی اشاعت کے گناہ کا اندیشہ ہے۔ ۳۰) اگر تنہائی میں فہمایش سے منکرات کا مبتلا نہ ما نے اور وہ اس کی اصلاح نہ کرلے اور اس کی مضرت عام تک پہنچنے والی ہو تو اس بات کی بُرائی عام خطاب سے مجمع میں ظاہر کرنا چاہیے۔ تاکہ لوگ اس مضرت سے واقف ہوجاویں اور کسی کے عمل و فعل سے دھوکے میں نہ پڑیں،البتہ خطابِ خاص سے عام مجمع میں نہ کہے۔ ۳۱) تبلیغ کے آداب سے آراستگی کا بڑا اہتمام رکھے ورنہ ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ کا مصداق ہے۔