مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اب (حکام) اہلِ دنیا کے پاس چلیں تاکہ ان کی دنیوی حالت سے کچھ ہم بھی فائدہ اٹھاویں اور (اس صورت میں مضراتِ دینی کا جو اندیشہ ان کے اختلاط سے ہے اس کے دفعیہ کے لیے یہ خیال کریں گے کہ) ان کی مضرت سے بچنے کے لیے ہمارے لیے اپنی معلوماتِ دینیہ کافی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان کا یہ خیال درست نہیں ہے بلکہ جس طرح کانٹے دار درخت سے اتصال اور قرب کانٹوں کی مضرت سے نہیں بچاتا ہے اسی طرح ان اہلِ دنیا سے اختلاط خطایا سے نہیں بچاسکتا۔ فائدہ:اگر امراء طالب ہوکر ان کے پاس حاضر ہوں یا کسی ضرورت سے خودا ن کو مدعو کریں تو اس معاہدے کے بعد کہ ہم آزادی سے جو چاہیں گے کہہ سکیں گے اور یہ کہ ہم کو نذرانہ وغیرہ نہ دیاجائے اگر ان سے مخالطت کریں تو یہ مخالطت دین ہے،ورنہ اگر علماء اس طرح بھی ان سے نہ ملیں تو ان کو دین کیوں کر پہنچے؟ مگر اس طرح کا اختلاط یہ ضروری علی الکفایہ ہے۔اس کے لیے ایسا ہی شخص زیبا ہے جو قوی القلب، غنی النفس ہو،ورنہ ضعیف کے لیے اسلم یہی ہے کہ امراء سے بالکل نہ ملے۔تبلیغِ حق کے لیے دوسرے لوگ کافی ہیں،یا علماء کے رسائل و کتب بس ہیں مگر اس کے ساتھ ہی یہ ضرور ہے کہ امراء سے اجتناب اختیار کرنے کے وقت ان کو حقیر اور اپنے کو مقدس نہ سمجھے بلکہ اُن کو مبتلائے بلیّاتِ دنیا و جہل سمجھ کر ان پر ترحم کرے، ان کے لیے دعا کرے، اور اپنے کو ضعفِ دین کا مریض سمجھ کر اجتناب کو ایسا سمجھے جیسا مریض ضعیف الطبع کو جس میں تاثر کا مادّہ غالب ہو دوسرے مرض کے مریض سے بچاتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے اس مبتلائے مرض پر غصہ بھی نہیں کرتے بلکہ اس پر بھی رحم کھاتے ہیں اور اپنے کو بھی بوجہ ضعف عن المرض اس سے بچاتے ہیں اسی طرح ان دنیا دار امراء پر بھی رحم کھانا چاہیے کہ ایسے اسبابِ جہل وعصیان میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم اس میں مبتلا ہوتے تو ہم بھی ایسے ہی ہوتے۔پس اپنی عافیت پر خدائے تعالیٰ کا شکر کرے ناز نہ کرے اور ان کے لیے دعا کرے۔البتہ اگر کوئی شخص حق سے عناد اور اہلِ حق سے بغض اور تکبر کرے اس سے بغض کرنا واجب اور عبادت ہے اور بغض فی اللہ یہی ہے۔ (حقوق العلم باختصار)