مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
ہدایت تھی کہ بچوں کو مارنے میں نہایت احتیاط سے کام لیں۔ ایک استاد تھے، وہ بہت مارتے تھے اور بار بار ہدایت سے بھی باز نہ آئے پھر حضرتِ اقدس تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو تمام طلباء کے سامنے مُرغا بنوادیا۔ حالاں کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اساتذہ کا بڑا اکرام فرماتے تھے ۔اس عمل سے انتہائی آپ کا قلبی الم اور صدمہ اس فعل سے ظاہر ہوتا ہے۔ غصے کی حالت کو اعتدال میں لانے کا طریقہ تشریح۸ بابِ دوم بہشتی زیور حصہ نمبر۷ سے نقل کیا گیا ہے۔ اسے اساتذۂ کرام گاہ بگاہ پڑھ لیا کریں کہ بار بار مذاکرے سے وقت پر استحضار ہوجاتا ہے ورنہ مطلق علم تو شدتِ غضب میں کالعدم ہوجاتا ہے۔ اگر استاد کی مارپیٹ کی بے اعتدالی سے اُمت ِمسلمہ کا ایک بچہ بھی متوحش اور ہراساں اور خوف زدہ ہوکر علمِ دین کا تارک ہوا تو اس کی اس محرومی کا وبال استاد پر اور منتظمین پر بھی ہوگا۔ حاصل یہ کہ جس طرح اپنی اولاد پر شفقت ہوتی ہے اسی طرح ہر طالبِ علم پر ہونی چاہیے۔ حضرتِ اقدس ہردوئی کا ارشاد ہے: وزیر کا بچہ، پیر کا بچہ اور فقیر کا بچہ استاد کی نظر میں توجہ، مہربانی اور شفقت کے لحاظ سے برابر ہوں۔ بچوں کے مارنے سے جہاں تک ہوسکے احتیاط کریں، البتہ سخت ضرورت پر حدود اور بچے کے تحمل کا لحاظ رکھتے ہوئے معمولی تادیب کردیں۔ چناں چہ حضرتِ اقدس ہردوئی نے فرمایا کہ بعض بچے جو نئے داخل ہوئے بعض وقت استاد کو بُری بُری گالیاں تک دے دیں اس وقت استاد کو تحمل اور صبر کی تلقین کی جاتی ہے اور ان کی صرف یہ سزا ہوتی ہے کہ استاد کا جوتا الٹی طرف سے (یعنی تلا والا نہیں) ان کے سر پر رکھا جاتا ہے۔ دماغ کو سینک دینا اس کا نام ہے۔ کسی کے سر پر ایک ایک گھنٹہ رکھا جاتا ہے۔ جب تک وہ معافی نہیں مانگ لیتے یہ سینک جاری رکھا جاتا ہے۔ یہ بھی سر سام ہے اس کو سینکنا مفید ہے۔ اسی طرح بعض بچے بعض کو ایک چپت ماردیتے ہیں۔ اس کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ گیارہ بچے ایک قطار سے یکے بعد دیگرے اس مارنے والے کو ایک ایک چپت لگائیں اس علاج کا نام دوائے کو کبی رکھا گیا ہے۔احد عشر کو کبا کی طرف اشارہ