مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کے حالات کو سامنے رکھ کر اسوۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سوچا جاوے۔ بعد شفائے غیظ مناسب طریقہ اصلاح کا تجویز کیا جائے۔ فہمایش یاتادیب۔ ۱۹) کسی کے توجہ دلانے پر اپنی غلطی علمی یا عملی ظاہر ہو تو اس کا ممنون ہونا چاہیے۔ ۲۰) ظہورِ غلطی پر اس غلطی کی تلافی کی فکر کرنا چاہیے۔ اس سے عظمت بڑھتی ہے۔ ۲۱) تعلیم المتعلم یا رحمۃ المتعلمین یا اشرف التفہیم کا مطالعے میں رکھنا۔ تشریح نمبر1:تعلیمی خدمات کو اپنا فرضِ منصبی سمجھنا۔یعنی یہ نیت کرنا کہ یہ کام ہم رضائے حق کے لیے کررہے ہیں، اگر خوشحالی اور فارغ البالی ہوتی تو تنخواہ کے بغیر ہی دینِ حق کے لیے اُسی طرح ہم سرگرمی سے کام کرتے۔ اس نیت سےان شاء اللہ تعالیٰ ’’ہم خرما وہم ثواب‘‘ کا انعام لیجیے یعنی وظیفہ بھی انعامِ خداوندی اور ثواب بھی انعامِ خداوندی۔ دین کی محنت اور خدمت کا اصل طریقہ نبوت کا بدون اُجرت کرنا تھا جیسا کہ سورۂ یٰسٓ میں ارشاد ہے:اتَّبِعُوۡا مَنۡ لَّا یَسۡـَٔلُکُمۡ اَجۡرًا وَّ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ؎ دوسرے مقام پر ارشاد ہے:اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللہ؎ اجر کا سوال نہ کرنا اور ہدایت یافتہ ہونا اس قید کی ضرورت اور اہمیت ظاہر ہے۔ ورنہ عیسائی مشینری بھی آج کل بدون اُجرت بلکہ دودھ اور مکھن کے ڈبّے بھی پیش کرکے اپنے مذہب کا پروپیگنڈا کررہی ہے لیکن وہ ہدایت یافتہ نہیں ہے۔ اور حق تعالیٰ شانہٗ سے اجر کا اُمید وار ہونا یہ تین باتیں دعوت اور خدمتِ دین کا علیٰ منہاج النبوۃ طرز ہے۔ لہٰذا نائبینِ انبیاء علیہم السلام کو نیابتاً اسی طرز کے اُصول کو مدنظر رکھتےہوئے کام کرنا چاہیے یعنی قلب میں یہی جذبہ اور نیت کار فرما ہو کہ یا اللہ! یہ تنخواہ اپنی مجبوری سے لے رہا ہوں ورنہ متبادل آمدنی کے لیے کوئی جائیداد وغیرہ ہوتی تو اے اللہ!آپ کے دینِ پاک کی خدمت بدون کسی معاوضہ اور وظیفہ کے کرتا، اور ہماری یہ بڑی ہی سعادت ہے کہ آپ کے کرم نے ہم کو دین کے کاموں کے لیے قبول فرمایا ہوا ہے ؎ ------------------------------