مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
متعلقین سے اگر کوئی بات پیش آجائے تو در گزر کردے۔ حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اگر میں جانتا کہ آپ حضرت حاجی صاحب سے بیعت ہیں تو یہ نامناسب بات بھی نہ کہتا۔ اُستاد کا درجہ پیر سے زیادہ ہے ان کا تو اور پاس ہونا چاہیے۔ تشریح نمبر10:اخلاقِ رذیلہ کی اصلاح کی فکر نہ ہونا اور اخلاقِ حمیدہ کی تحصیل کا اہتمام نہ ہونا۔طلبائے کرام کو اصلاحِ اخلاق کے لیے کسی بزرگ سے تعلقِ اصلاحی ضروری ہے۔ یہ نعمت صرف کتابوں سے نہیں ملتی۔ پہلے زمانے میں طلباء کو اکابر بیعت نہ فرماتے تھے،ان کو تعلیم میں ہمہ تن مصروف رکھتے تھے لیکن اب زمانہ بدل گیا اب پہلے جیسے صالح طلباء نہ رہے۔ حضرتِ اقدس پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے احقر کو اور ایک دوسرے ساتھی کو طالبِ علمیہی میں بیعت فرماکر یہ ارشادفرمایاکہ اب طالبِ علموں کو بیعت کرکے انہیں بھی کچھ مختصر سا ذکر بتادینا چاہیے اور طالبِ علمی ہی سے ان کی اصلاحِ اخلاق کی فکر ہونی چاہیے،کیوں کہ اب وہ زمانہ نہ رہا جب اکابر طلباء کو بیعت نہ کرتے تھے۔ کیوں کہ ان کو یہ خوف ہوتا تھا کہ طلبِ علم سے ان کی توجہ ہٹ کر زیادہ اشغال و ذکر کی طرف ہوکر علم کے حصول میں خلل ہوگا۔ لیکن اُس وقت کے طلباء اکثر اشراق و تہجد اور اوّابین کے پابند ہوتے تھے۔ اُن کا ظاہر او رباطن صالح ہوتا تھا۔ اب تو طلباء کا حال ہی کچھ اورہے الّا ماشاء اللہ۔ اس لیے اب اس علمی اور عملی انحطاط و زوال کے دور میں طالبِ علمی ہی کے زمانے میں عملی اور اخلاقی اصلاح کے لیے انہیں کسی بزرگ سے تعلقِ اصلاحی قائم کرلینا چاہیے،مگر ان چار شرطوں کے ساتھ ہی نفع تام ہوتا ہے جس کو حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے ؎ چار شرطیں لازمی ہیں استفادہ کے لیے اطلاع و اتباع و اعتماد و انقیاد حضرتِ اقدس ہردوئی دامت برکاتہم نے ارشاد فرمایا کہعملی کوتاہیاں ضعفِ ہمت سے