مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
۳) غیبت کرنے سے دین و دنیا دونوں کو نقصان ہوتا ہے۔ دنیا کا نقصان یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے وہ اگر سن پائے تو غیبت کرنے والے کی فضیحت کر ڈالے بلکہ اگر بس چلے تو بُری طرح سے خبر لے۔ دین کا نقصان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی گویا سامانِ دوزخ ہے۔ ۴) حدیث شریف میں ہے کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ ضرر کا باعث ہے۔ ؎ ۵) غیبت کرنے والے کی اللہ تعالیٰ بخشش نہ فرمائیں گے جب تک بندہ معاف نہ کرے کیوں کہ یہ حقوق العباد میں سے ہے۔ ۶) غیبت کرنا گویا اپنے مُردار بھائی کا گوشت کھانا ہے۔ بھلا کون ایسا ہوگا جو اپنے مُردار بھائی کا گوشت کھائے گا؟ جیسا کہ اس کو بُرا و ناگوار خیال کیا جاتا ہے اسی طرح غیبت کے ساتھ معاملہ چاہیے۔ ۷) غیبت کرنے والا بزدل ڈر پوک ہوتا ہے۔ جب ہی تو پیٹھ پیچھے بُرائی کرتا ہے۔ ۸) غیبت کرنے سے چہرے کا نور پھیکا پڑتا ہے اور ایسے شخص کو ہر شخص ذلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ۹) غیبت کا بڑا ضرر یہ ہے کہ قیامت کے دن غیبت کرنے والے کی نیکیاں جس کی غیبت کی ہے اس کو دے دی جائیں گی،اگر اس سے کمی پوری نہ ہوئی تو جس کی غیبت کی ہے اس کی بَدیاں اس کی گردن پر لاد دی جائیں گی جس کے نتیجے میں جہنم کا داخلہ ہوگا۔ ایسے شخص کو حدیث شریف میں دین کا مفلس فرمایا گیا ہے۔ لہٰذا دنیا ہی میں اس کی معافی کرالینی چاہیے۔ ۱۰) غیبت کا عملی علاج بھی کرنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ جب کوئی غیبت کرے اور منع کرنے پر قدرت ہو تو منع کردے ورنہ وہاں سے خود اُٹھ جانا ضروری ہے اور اس کی دل شکنی کا خیال نہ کرے کیوں کہ دوسرے کی دل شکنی سے اپنی دین شکنی (دین کو نقصان پہنچانا) زیادہ قابلِ احتراز ہے۔ یوں اگر نہ اُٹھ سکے تو کسی بہانے سے اُٹھ ------------------------------