مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
میں مذکور ہے۔ ۴) تقرر کے وقت جانچ تکمیل نصابِ مذکور کی کیا جانا۔ اگر سَند تکمیلِ نصاب نہ ہو تو نواقضِ وضو، واجباتِ غسل و فرائضِ غسل اور مسائلِ ضروریہ دریافت کرنا۔ ۵) جانچ میں اذان و اقامت متفرق اوقات میں کہلوانا۔ نماز پڑھوانا۔ تصحیحِ اذان کے متعلق جس کوتاہی کا اُوپر ذکر ہوا اس کی خصوصی دیکھ بھال کرنا۔ ۶) تقرّر اوّلاً عارضی ہونا، پھر استقلال ہونا۔ ۷) کورس کی کمی پر بھی بشرطیکہ اذان واقامت صحیح کہہ سکتے ہوں، تقرر کیا جاسکتا ہے۔ بعد میں معیّنہ کورس کی تکمیل کرنا (ایک ماہ میں) اور اس کےبعد مستقلی کرنا۔ ۸) مساجد میں کسی نہ کسی وقت کتابِ دینی سُنانے کا سلسلہ ہونا خواہ پانچ ہی منٹ ہو، بالخصوص آداب و احکامِ مسجد بتلانا (آخر الذکر کے لیے منیۃ الساجد فی آداب المساجد مصنفہ، مولانا محمد شفیع صاحب مناسب ہے۔) ۹) اوقاتِ خمسہ میں نمازوں کے بعد دس تا تیس منٹ تصحیحِ قرآنِ مجید کا سلسلہ رہنا بذریعۂ امامِ مسجد، ضرورت پر اضافۂ وقت کیا جاسکتا ہے۔ ۱۰) امام کی نگرانی میں محلّے میں گشت تبلیغی بھی ہونا چاہیے۔ ۱۱) گاہ بگاہ گھروں پر مستورات کو دینی باتوں کے سنانے کا نظام قائم کرنا بذریعۂ امامِ مسجد ورنہ کسی دوسرے مناسب شخص کے ذریعے۔ تشریح نمبر1:اذان کے فضائل کو پہلے تفصیل سے تحریر کرچکا ہوں اور مسجد کی خدمت کی اہمیت تو اسی سے ظاہر ہے کہ جس کا گھر ہے وہ کتنے بڑے اور عظمت والے ہیں۔ ہر چیز کی اہمیت میں نسبت کو دخل ہوتا ہے۔ کعبہ کو حق تعالیٰ نے بَیْتِیْفرمایا ہے،عربی میں یا کے معنیٰ میرے آتے ہیں جیسے کِتَابیْ میری کتاب۔ اسی طرح بَیْتِیْمیرا گھر۔ اس نسبت سے آج کعبہ کی عظمت و شرف کا مشاہدہ حجاجِ کرام کو ہوتا رہتا ہے کہ کیسے کیسے سلاطین بھی اس بارگاہِ پاک کے دروازے پر بھکاری بنے کھڑے پہروں دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا عجیب شعر یاد آیا ؎