مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
یعنی سرکاری آدمی۔ پھر ہم میں سے بعضوں کو صاحبِ مال بنایا اور بعضوں کو صاحبِ جمالو کمال۔ ہر ایک کو اس کی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے۔جس کا حاصل یہی ہے کہ اپنے کو اس کا مستحق نہ سمجھے بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کا فضل و عطیہ سمجھے۔ آپ سے یہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو اتنا مال دیا ہے کہ ضروریات سے بچ جاتا ہے تو اس کے متعلق حکمِ خداوندی معلوم کریں کہ اتنے مال میں کتنامال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے اسی کو زکوٰۃ کہتے ہیں۔اور جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے اس پر صدقۂ فطر اور قربانی بھی ضروری ہوتی ہے۔اسی طرح آپ اپنے گھر کی مستورات کو زکوٰۃ، قربانی اور صدقۂ فطر کی اہمیت کی طرف متوجہ فرمائیں کہ زیور، گوٹہ، ٹھپہ کی زکوٰۃ احتیاط سے نکالتی رہیں کیوں کہ اس میں کوتاہی کرنے پر سخت عذاب کا اندیشہ ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ؎ قیامت کے روز زکوٰۃ نہ دینے والوں کا مال ایک بہت زہریلے سانپ کی شکل میں کردیا جائے گا جو اس کی بانچھیں پکڑ کر کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں تیرا خزانہ ہوں۔ اس آیت کی یہی تفسیر حدیث شریف میں آئی ہے۔اور دسویں پارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو زکوٰۃ، قربانی یا فطرہ نہیں دیتے ہیں تو ان کو بتلادیجیے کہ قیامت کے روز ان کے روپیوں پیسوں اور چاندی سونے کو چاندی سونے کی تختیوں میں کرکے اس کو جہنم کی آگ سے تپاکر اس سے ان کے پہلو اور پیشانیاں او رچہرے داغے جائیں گے۔ اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب یہ تختیاں ٹھنڈی ہوجاویں گی تو پھر تپائی جاویں گی اور یہ معاملہ قیامت کے اتنے بڑے دن میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی۔ اس مضمون کو آپ یاد کرلیں یا لکھ لیں اور مستورات کو ہفتہ وار یا ماہانہ سناتے رہیں۔ اسی طرح اور جس کو آپ مناسب سمجھیں جو اس معاملے میں سُستی کرنے والا ہو ان کو مطلع کردیں۔ زیور کے علاوہ زکوٰۃ مالِ تجارت میں بھی ہوتی ہے۔ بہرحال زکوٰۃ کی تشریح و تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔جن کے پاس مالِ تجارت ہو یا سونا چاندی ہو وہ کتابیں دیکھیں یا علما سے پوچھ کر حکم معلوم کریں کہ اس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں۔ ------------------------------