مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
بعض اہلِ حق اداروں کے فارغینِ اہلِ علم کو غیر اہلِ حق کی مساجد میں امامت کرتے ہوئے پایا اور تمام ان منکرات میں مبتلا پایا جن کو دل میں یہ بُرا اور منکر جانتا تھا۔ تو بات کیا ہے؟ دل میں مال کی محبت اور دنیا کی محبت۔ حق تعالیٰ پر توکل و بھروسا اور اعتماد کی کمی۔ اسی طرح سے بعض اہلِ علم کا قصہ بیان کرتا ہوں۔ ایک فارغ التحصیل جس نے دس برس علمِ دین حاصل کرکے ایک مشہور اور مستند دینی ادارے سے عالم ہونے کی سند بھی حاصل کرلی لیکن جب اپنے ملک واپس جانے لگے تو بمبئی ایئر پورٹ پر داڑھی منڈالی اور کوٹ پتلون ٹائی لگاکر چل دیے۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ یہ کیا بات ہے؟ علمِ ظاہری بدون تقویٰ کے یہی نتائج ظاہر ہوتے ہیں اور برعکس جن طلباء کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت و خوف پیدا ہوگیا ان کو حافظ ہونے کے بعد والدین کے اصرار کے سبب انگریزی پڑھنے کے لیے یونیورسٹی جانا پڑا مگر وہاں ان کا وہی لباس صالحین کا اور داڑھی شرعی، اور اپنے ماحول سے وہ ذرا بھی مرعوب اور متأثر نہ ہوئے۔ پختہ اور خام میں یہی فرق ہوتا ہے۔ غالب اور مغلوب میں یہی فرق ہوتا ہے۔ عمل کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہے: روشنی، علم اور طاقت۔مثلاً: سیب سامنے ہے دیکھ رہا ہے اور روشنی بھی ہے مگر کمزوری سے اُٹھ کر سیب تک جا نہیں سکتا۔ حالاں کہ کھانے کے لیے بے چین ہے اور صد فیصد اس کو مفید سمجھتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبان نے بھی حکم دے رکھا ہے کہ سیب کھاؤ، مگر کمزوری سے لیٹا ہوا ہے محروم ہے۔ لیکن ڈاکٹر طاقت کا انجیکشن لگاتا ہے اور طاقت کے کیپسول دیتا ہے تو پھر خود اُٹھ کر سیب کھالیتا ہے۔ یہی حال علم کا ہے۔ علم کی روشنی ہے، راستہ رضائے حق کا معلوم ہے، مگر عمل کی طاقت نہیں ہے۔ پس صالحین متقین کی صحبت سے عمل کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے دو کاہلوں کا قصہ بیان فرمایا کہ ایک لیٹا تھا اور اس کے سینے پر ایک بیری کا پھل تھا (کاہل) ایک سوار سے جو اس کے پاس سےگزر رہا تھا، اس سے کہہ رہا تھا کہ اس کو ہمارے منہ میں ڈال دو۔ اس سوار نے کہا کہ اپنے لیٹنے والے دوست سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ تمہارے منہ میں ڈال دے؟ اُس کاہل نے کہا کہ میں