مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کے پاس نہیں ہے اس لیے آپ ہمارے محتاج ہوئے نہ کہ میں آپ کا محتاج ہوا۔اور حضرت والا نے فوراً فرمایا کہ میں اب یہاں نہیں ٹھہرتا۔ واپس جاتا ہوں۔ پھر ایسا مزاج درست ہوا کہ ہر مولوی صاحب کی یہ صاحب قدر کرتے تھے،اور ڈرتے ہوئے ادب سے بات کرتے تھے کہ کہیں یہ مولوی صاحب بھی اس مزاج کے نہ ہوں۔ ارشاد فرمایاکہ تیرہ سو برس کے بعد حق تعالیٰ نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو پیدا فرمایا اور ان کے ہرروز کے تمام ملفوظات اور معمولات تک کتابوں میں محفوظ ہوگئے اور ان کے انتقال کو اتنے دن ہوگئے مگر آج اگر ان کے اُصول کے خلاف کوئی الزام لگاوے کہ مثلاً مولانا نے وعظ کہہ کر ۵۰۰ روپیہ فلاں جگہ معاوضہ لیا تو آج کوئی بھی اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا، اور مولانا کے مذاق اور اُصول کے جاننے والے ہزاروں کی تعداد میں اس کی مخالفت کریں گے اور ایسے شخص کو جھوٹا کہیں گے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی حفاظت کا کیا عالم ہوگا اور آپ کے مذاق اور اُصول کی حفاظت کا کیا عالم ہوگا۔ جب ان کے غلاموں کی یہ شان ہے اور غلام بھی جو تیرہ سو برس کے بعد پیدا ہوتا ہے اور پھر حق تعالیٰ شانہٗ نے جس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَاور حدیثِ پاک جس کی شرح و تفسیر ہے، پس جس طرح حق شانہٗ نے الفاظِ کلامِ پاک کی ذمہ داری لی ہے اسی طرح معانیقرآنِ پاک کی حفاظت بھی اپنے ذمہ لی ہے،کیوں کہ اگر شرح گڑبڑ ہوجائے تو متن کی حفاظت کی کیا اہمیت رہ جائے گی (احقر جامع عرض کرتا ہے کہ علامہ امام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے الفاظِ قرآنِ پاک پر مامور تھے ویسے ہی قرآن کے معنیٰ کی تعلیم پر بھی مامور تھے، ارشاد فرمایا حق تعالیٰ نے کہ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ تو اس آیت میں جیسا کہ الفاظ کے بیان کرنے کا حکم ہے ویسا ہی معنیٰ کے بیان کابھی حکم ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ابو عبیدالرحمٰن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ان بزرگوں نے فرمایا جو قرآن کے پڑھنے والے تھے جیسے حضرت عثمان اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اور سوا ان کے کہ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے تھے تو آگے نہ بڑھتے تھے یہاں تک