مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
لیے تبلیغی نظام ہے۔ مساجد اور مدارس میں ایک منٹ کا مدرسہ صبح، ایک منٹ کا مدرسہ شام کا اس طرح شروع کیا جاوے کہ صرف ایک سنت صبح بتادی جاوے تو تیس دن میں تیس سنتیں یاد ہوجاویں گی اور تعب بھی نہ ہوگا۔ آج ہم ہر چیز بَڑھیا اور عمدہ پسند کرتے ہیں، دوکان بڑھیا ہو،مکان بڑھیا ہو،اور پان بھی بڑھیا ہو، اور نان بھی بڑھیا ہو، تو اس میں کوئی اشکال نہیں، کیوں کہ انسان خود اشرف المخلوقات ہے۔ اگر ہر چیز اسے اشرف اور اعلیٰ پسند ہو تو یہ اس کی فطری خواہش ہے،لیکن یہ انسان اپنے لیے تو اشرف اور بڑھیا چیز پسند کرے مگر اپنے مالک اور خالق کے کاموں میں بھی اس کو یہی تقاضا ہونا چاہیے کہ اس کا وضو بھی بَڑھیا ہو۔ اور نماز بھی بَڑھیا ہو،مگر وضو اور نماز کب بَڑھیا ہوگی؟ جب سنت کے مطابق ہوگی،نماز میں چھ فرائض ہیں،اٹھارہ واجبات ہیں، اور اکیاون سنتیں ہیں، مگر آج سو آدمیوں میں ایک آدمی کی بھی نماز سنت کے مطابق نظر نہیں آتی۔ اگر ایک سنت روز بتائی جاوے تو اکیاون دن میں نماز کی اکیاون سنتیں یاد ہوجاویں گی، وضو کی تیرہ سنتیں تیرہ دن میں یاد ہوجاویں گی،اور اسی طرح زندگی کے تمام شعبوں کی سنتیں یاد کرائی جاسکتی ہیں۔ لیکن جب وضو اور نماز کی سنتوں کا اہتمام نہیں تو ختنہ اور عقیقہ اور کھانے پینے کی سنتیں کون یاد کرے گا۔ اور جب ہماری زندگی سنتوں سے محروم ہوتی جاوے گی تو خاندان اور برادری کی غلط رسم و رواج یا پھر شہر کی یا صوبے کی یا ملک کی راہ و رسم آجاویں گی۔ جب اصلی گھی گھر میں نہ ہوگا تو لامحالہ ڈالڈا کھانا پڑے گا۔ اور جب سنتوں کو سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کا اہتمام ہوگا تو غلط رسم ورواج خود ہی دور ہونے لگیں گے۔ جس طرح بارش کا پانی جب برستا ہے تو نالے اور نالیاں گندے پانی سے خود بخود صاف ہوجاتی ہیں۔دین آسان ہے۔ مساجد میں ایک سنت روز سکھائے، چند ماہ میں اس طرح نمازیوں کو کتنی سنتوں کا علم ہوجاوے گا،اور ہر نمازی اپنے گھر جاکر عورتوں اور بچوں کو سکھائے۔ اور اسی طرح مدرسے میں جن طلباء کو ہر روز ایک سنت سکھائی جاوے وہ گھر جاکر اپنے بھائی اور بہنوں اور ماں باپ کو سکھائیں، اس طرح سنت کے انوار مساجد اور مدارس سے گھر گھر پھیل جاویں گے۔ اور جب سنتیں