مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۲۵﴾ وَ اِنۡ عَاقَبۡتُمۡ فَعَاقِبُوۡا بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَلَئِنۡ صَبَرۡتُمۡ لَہُوَ خَیۡرٌ لِّلصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۲۶﴾ وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ اِلَّا بِاللہِ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا تَکُ فِیۡ ضَیۡقٍ مِّمَّا یَمۡکُرُوۡنَ ﴿۱۲۷﴾ اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ ﴿۱۲۸﴾٪ ؎ ترجمہ مع تفسیر:آپ اپنے رب کی راہ (یعنی دین) کی طرف (لوگوں کو ) علم کی باتوں (کے ذریعے سے جن سے مقصود اثباتِ مدّعا ہوتا ہے) اور اچھی نصیحتوں کے ذریعے سے (جن سے مقصود ترغیب و ترہیب و ترقیقِ قلب ہوتا ہے) بلائیے اور (اگر بحث آن پڑے تو) ان کے ساتھ اچھے طریقے سے (کہ جس میں شدت و خشونت نہ ہو) بحث کیجیے (بس اتنا کام آپ کا ہے۔پھر آپ اس تحقیق میں نہ پڑیے کہ کس نے مانا کس نے نہیں مانا کیوں کہ یہ کام خدا کا ہے پس) آپ کا رب خوب جانتا ہے ،اس شخص کو بھی جو اس کے رستے سے گم ہوا اور وہی راہ پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے اور (اگر کبھی کفّار جدالِ علمی کی حد سے گزر کر جدالِ عملی تک پہنچ جاویں اور یدیا لسان سے ایذا پہنچا ویں اس میں آپ کو مع آپ کے تابعین کے بدلہ لینا بھی جائز ہے کہ رخصت ہے اور صبر کرنا بھی جائز ہے کہ عزیمت ہے پس) اگر (شقِ اوّل اختیار کرو یعنی) بدلہ لینے لگو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا ہے (کہ اس سے زیادہ مت کرو) اور اگر (شقِ ثانی اختیار کرو یعنی ان کی ایذاؤں پر) صبر کرو تو وہ (صبر کرنا) صبر کرنے والوں کے حق میں بہت ہی اچھی بات ہے ( کہ مخالف پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور دیکھنے والوں پر بھی، اور آخرت میں موجبِ اجرِ عظیم ہے) اور (ہر چند کہ صبر کرنا عموماً سب کے لیے عزیمت ہے لیکن خصوصاً آپ کے لیے بوجہ اعظمیتِ شان کے اوروں سے زیادہ عزیمت ہے اس لیے آپ کو خصوصیت کے ساتھ حکم ہے کہ) آپ صبر کیجیے اور (چوں کہ ) آپ کا صبر کرنا خاص خدا ہی کی توفیق (خاص) سے ہے( اس لیے آپ تسلی کرلیں کہ صبر میں آپ کو دشواری نہ ہوگی) اور ان (لوگوں کی مخالفت) پر غم نہ کیجیے اور جو کچھ یہ (مخالفت میں) تدبیریں کیا کریں ان سے ------------------------------