مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اُمورِ واجبہ میں امرو نہی کرنا واجب ہے، اور اُمورِ مستحبّہ میں مستحب، مثلاً: نمازِ پنجگانہ فرض ہے تو ایسے شخص پر واجب ہوگا کہ بے نمازی کو نصیحت کرے، اور نوافل مستحب ہیں توا س کی نصیحت کرنا مستحب ہوگا۔اور جو شخص بالمعنی المذکور قادر نہ ہو اس پر امرو نہی کرنا اُمورِ واجبہ میں بھی واجب نہیں، البتہ اگر ہمّت کرے تو ثواب ملے گا۔ پھر اس امر ونہی میں قادر کے لیے اُمورِ واجبہ میں یہ تفصیل ہے کہ ۲) اگر قدرت ہاتھ سے ہو تو ہاتھ سے اس کا انتظام واجب ہے، جیسے حکّام محکومین کے اعتبار سے، اور اگر صرف زبان سے قدرت ہو تو زبان سے کہنا واجب ہے۔ اور غیر قادر کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ تارکِ واجبات و مرتکبِ محرّمات کے عملِ قبیح سے دل سے نفرت رکھے۔ پھر قادر کے لیے من جملہ شرائط کے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ ۳) اس امر کے متعلق شریعت کا پورا حکم اس کو معلوم ہو۔ اور من جملہ آداب کے ایک ضروری ادب یہ ہے کہ ۴)مستحبات میں مطلقاً نرمی کرے اور واجبات میںاوّلاً نرمی اور نہ ماننے پر سختی کرے۔ اور ایک تفصیل قدرت میں یہ ہے کہ ۵) دستی قدرت میں تو کبھی اس امر و نہی کا ترک جائز نہیں اور زبانی قدرت میں مایوسیٔ نفع کے وقت ترک جائز ہے۔ لیکن مودّتِ قلبی و مخالطتِ عملی کا بھی ترک واجب ہے۔ مگر بضرورتِ شدیدہ ۶) پھر قادر کے ذمہ اس کا وجوب علی الکفایہ ہے۔اگر اتنے آدمی اس کام کو کرتے ہوں کہ بقدرِ حاجت کام چل رہا ہو تو دوسرے اہلِ قدرت کے ذمے سے ساقط ہوجائے گا۔ یہ کل چھ مسئلے اس مقام پر ذکر کیے گئے۔ اور علم کی شرط ہونے سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ آج کل جو اکثر جاہل یا کالجاہل لوگوں کو وعظ کہتے پھرتے ہیں اور بے دھڑک غلط سلط روایات و احکام بلا تحقیق بیان کرتے ہیں سخت گناہ گار ہوتے ہیں،اور سامعین کو بھی ان کا ایسا وعظ سننا جائز نہیں کہ اس سے بجائے ہدایت کے