مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اس کی تشریح کے سلسلے میں حضرتِ اقدس ہردوئی نے فرمایا کہ جب کسی بزرگ سے اصلاحی تعلق نہیں ہوتا تو اس کی مثال اس موٹر کی ہے جس پر ڈرائیور نہ ہو۔ ایسی موٹر خود بھی تباہ ہوتی ہے اور اس پر بیٹھنے والوں کو بھی ہلاک کرتی ہے۔ دنیا میں جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے ہیں ان کا بانی جاہل نہیں ہوتا پڑھا لکھا ہی ہوتا ہے ۔مگر اس کا کسی بزرگ سے اصلاحی تعلق نہیں ہوتا لہٰذا کچھ دن تو صحیح کام کرتا ہے پھر جیسے موٹر بدون ڈرائیور سیدھی سڑک پر کچھ دیر صحیح چلے گی مگر جب موڑ یا چوراہا آوے گا تو ٹکر کھا جائے گی یا غلط راہ پر لگ جائے گی، اسی طرح وہ شخص بھی دین کے کسی موڑ اور چوراہے پر ٹکر کھاکر خود بھی گمراہ ہوجاتا ہے اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بھی بنتا ہے۔ لہٰذا مؤذن اور امام اور مدرّس کے لیے بوقتِ تقرّر ہمارے یہاں یہ شرط ہے کہ اس کا تعلق اکابر میں سے کسی سے ضرور ہو۔ اور اس کے حسبِ ذیل فوائد ہیں: ۱) بزرگوں کی صحبت اور تعلق والا عموماً متواضع اور با ادب اور فرماں بردار ہوتا ہے۔ ۲) اگر ایسے اشخاص سے کام صحیح نہ ہورہا ہو یا خدانخواستہ نامناسب رویہ اختیار کرنے پر مہتمم کو مجبوراً اُن کو الگ کرنا پڑے تو جس بزرگ سے ان کا تعلق ہوتا ہے اُن کے مشورے سے با آسانی اخراج ممکن ہوتا ہے۔ مزاحمت اور عوامی انتشار اور بغاوتِ مخالفانہ کا خطرہ نہیں ہوتا۔ ۳) اکثر ایسے حضرات صالح ہوتے ہیں جن کا کسی بزرگ سے تعلق ہوتا ہے،اور پھر ان کی صحبت میں طلباءبھی رہ کر صالح بن جاتے ہیں ؎ صحبتِ صالح ترا صالح کند صحبتِ طالح ترا طالح کند نیک لوگوں کی صحبت تجھے نیک بنادے گی اور بُرے لوگوں کی صحبت تجھے بُرا بنادے گی۔ ۴) ایسے لوگوں کو چوں کہ خود بھی اصلاح کی فکر ہوتی ہے اس لیے صالح ماحول بنانے میں ان سے مدد ملتی ہے۔ ورنہ مناسب ماحول نہ ہونے کے سبب صالح فضا مدرسے میں قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔