مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
۲۵) معلمینِ قاعدہ و ناظرہ و حفظ کا مشاہرہ معقول مقرر کرنا خواہ علمائے کرام سے زیادہ ہوجائے۔ مدارِ وظیفہ ضرورت ہونا چاہیے، نہ کہ علمی لیاقت۔ ۲۶) ایسے اساتذہ کو معلمین مقرر کرنا جو نصابِ مدرّسین کی تکمیل کیے ہوئے ہوں۔ ۲۷) تقرّر کے وقت نصابِِ مدرّسین کے موافق جانچ کرانا اگرچہ سند تکمیلِ نصاب مدرّسین بھی موجود ہو۔ (بعض اوقات صلاحیت حاصل شدہ بے فکری سے کم ہوجاتی ہے) ۲۸) بروقت داخلہ طلبا قرآنِ پاک میں امتحان کرانا۔ ۲۹) تصحیحِ مطلوب کی کمی پر تصحیحِ قرآنِ مجید کے لیے وقت مقرر کرانا۔ ۳۰) اجتماعِ طلبہ، جلسہ اور وعظ میں تدویراً وحدراً طلبہ سے قرآن شریف پڑھوانا۔ ۳۱) قواعدِ تجوید کے موافق سنانے پر انعام کا دیا جانا۔ ۳۲) تصحیحِ قرآن شریف کی ناکامی پر وظیفے کا بند کرنا اور درجہ کی ترقی سے محروم کرنا۔ ۳۳)حسبِ ضرورت اساتذہ کو اشرف التفہیم (نصائحِ اساتذہ و طلبہ کے لیے پسند فرمودہ حضرت حکیم الاُمت رحمۃ اللہ علیہ۔اس ناکارہ نے اس کی تبویب کی ہے۔ نام اشرف التفہیم لتکمیل التعلیم ہے ۔اب یہ رسالہ’’ اُصول زریں برائے طلباء ومدرّسین‘‘ کے نام سے مجلس اشاعۃ الحق ۴۔جی 12/1 ناظم آباد کراچی سے بھی دستیاب ہے۔جامع)یا رحمۃ المتعلمین کے مطالعے کی تاکید کرنا اور تکمیلِ نصاب کرانا۔ تشریح نمبر1 و نمبر 2:عظمتِ طلباء بالخصوص عظمتِ طلبائے قرآن شریف کا اہتمام نہ ہونا۔طالبِ علم کی توقیر اور تکریم اور تعظیم کی توفیق جب ہی ہوسکتی ہے جب کہ علمِ دین کی عظمت قلب میں ہو۔آج ڈاکٹری اور انجینئرنگ کی ڈگری کوئی امریکا یا لندن سے لے کے آتا ہے اس کی کتنی عزت ہوتی ہے۔ اس کا سبب صرف یہی ہے کہ ابدان واجسام کی راحت کی قدر ہے۔ اسی طرح اگر رُوح کے سکون کا اہتمام ہو اور وطنِ آخرت کی فکر ہو تو علمِ دین پڑھنے والوں کی اور علمِ دین سکھانے والوں کی اور علمِ دین کی قدر ومنزلت ہوگی۔ اس سلسلے میں کچھ باتیں نقل کی جاتی ہیں۔