مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کے متصل ایک رحبہ یعنی مہمان خانہ بنادیا جس کا نام بطیحا تھا (مسافر اس میں ٹھہرا کرتے تھے اور آرام کرتے تھے) اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: جو شخص گفتگو کرنے کا ارادہ کرے یا اشعار پڑھنا چاہے یا اپنی آواز بلند کرنا چاہے وہ اُس مہمان خانے سے نکل جاوے۔ (نوٹ): اللہ اکبر! کیا ادب مساجد کا عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں تھا۔ اب تو مساجد کے اندر بھی ان باتوں سے احتیاط کی توفیق نہیں ہوتی۔ روایت نمبر5:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ہر قبائل میں مساجد تعمیر کی جائیں،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کی صفائی کا اور مساجد میں خوشبو کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔؎ (فائدہ): اس حدیث سےمساجدکی صفائی اور خدمت کرنےوالا دراصل حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کے سبب سرکاری اور درباری آدمی ہوا۔ پس اس کو حقیر سمجھنے اور ستانے والے اور ذرا سی بات میں اس کی ہر اہانت کو جائز سمجھنے والے اپنے عمل پر نظرِ ثانی فرمالیں۔ایک پولیس افسر کے خانساماں اور معمولی خادم کے ساتھ بھی جرأت نہیں ہوتی کہ اس کے ساتھ گستاخی اور بدتمیزی سے پیش آئیں ؎ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا چراغِ مردہ کجا شمع آفتاب کجا تشریح نمبر2: خدّامِ مسجد، مؤذنین اور ائمۂ مساجد کے لیے معقول مشاہرہ مقرر کرنا کہ اچھی طرح گزر کرسکیں۔ اس گرانی کے زمانے میں ایک چپراسی اور معمولی کلرک کی تنخواہ تین سو سے چار سو تک ہے او رپھر بھی وہ پریشان، اور تنگ حالی کا شکوہ حکومت سے کرتے رہتے ہیں لیکن وہی منتظمہ کے صدر اور سیکریٹری جن کا اپنا گزر تو ہزار روپے ماہوار سے بھی انہیں مشکل نظر آرہا ہے او رمؤذن کو سو یا ڈیڑھسو اور امام کو دو سو سے تین سو دیتے ہوئے بھی اپنے ------------------------------