ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
وہ کریں اہل جان کا جو کام ہے وہ کریں تقسیم عمل سے بڑی سہولتیں پیدا ہوتی ہیں علماء سے دوسرے کام کی توقع ایسی ہے جیسے کوئی شخص حکیم محمود خاں کے پاس جاکر ٹوٹے ہوئے جوتہ کے سینے کی ترکیب ان سے پوچھنے وہ کہیں گے کہ دہلیز پر باہر چمار بیٹھا ہے یہ کام اس کے سپرد کرو ہمارایہ کام نہیں یا حکیم صاحب سے کوئی کہے کہ طبی کانفرنس میں جوتے گا ٹھنے کا منافع بیان کرو یہ سخت توہین ہوگی محمود خان کی اور فن طب کی بھی ایسے ہی یہاں سمجھ لو علماء سے مسائل پوچھو دینا کے حصول کی تدابیر انہیں کیا معلوم خوب سمجھ لیجئے پھر ایک اور بات بھی قابل لحاظ ہے وہ یہ کہ دنیا کہ ترقی اور اس کے حصول کے بھی تو کچھ شرائط اور حدود ہوں گے یہ تو نہیں کہ اس کے لئے جو جی میں آیا کر لیا جو جی میں آیا کہہ دیا جب دنیا کی ترقی کی بھی ایک حد ہے تو اس سے آگے بڑھنا و بال جان بلکہ مضر ایمان ہوگا میں نے لکھنو ایک وعظ میں بیان کیا تھا اس وعظ میں نو تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگ زیادہ تھے ـ بڑے بڑے بیرسٹر اور وکلا کا مجمع تھا میں نے کہا تھا کہ ترقی ترقی گاتے پھرتے ہو آخر اس کے کچھ حدود بھی ہیں اگر ہر ترقی مطلوب ہے تو انسان کے بدن پر کبھی ورم آجاتا ہے جس سے اس کے جسم کی ترقی ہو جاتی ہے تو پھر اس کے ازالہ کی تدابیر طبیب یا ڈاکٹر سے کیوں پوچھتے ہو اور اس کو مزموم کیوں سمجھتے ہو اگر حدود سے گزر کر ترقی کی جاوے تو ایسے ہوگی جیسے فرعون نے ترقی کی تھی تو ایسی ترقی سے ایک مسلمان ایمان والے کو کیا فائدہ ایسی ترقی کہلانے کے قابل کب ہوگی یقینا کفار کی ترقی کہلائے گی اور اس کے حصول کی فکر بھی بے ضرورت ہی ہوگی اس لئے کہ کفار کی ترقی تو ہوہی رہی ہے پھر مسلمانوں کے لئے ایسی ترقی میں کونسی خوبی ہوگی انکی خوبی تو اسی ترقی میں ہے کہ حدود کا تحفظ ہو اور پھر ترقی ہو یہ ہے خوبی کی بات اور ایسی ترقی غیر ممکن نہیں محال نہیں سلف کے کارنامے تمہارے سامنے ہیں کہ شرق سے غرب تک اور جنوب سے شمال تک اعلاء کلمۃ الحق کے گئے ان کی کامیابی اور ترقی میں جو بڑی بات ہے ـ وہ یہ ہے کہ حدود کا تحفظ رکھا اور اس کے ماتحت کامیابی اور ترقی کی نکاح کا نتیجہ جب ہی بر آمد ہو سکتا ہے کہ میاں بھی صحیح المزاج ہو اور بیوی میں بھی کوئی نقص نہ ہو تب ہی اولاد پیدا ہوگی اسی طرح اگر علماء بھی متدین اہل تقویٰ و اہل فتویٰ ہوں اور عوام بھی اونکے مطیع و فرمانبردار ہوں اس صورت میں انشاءاللہ تعالی نتیجہ بہتر سے بہتر برآمد ہوگا غرض کام کے انجام دینے کے لئے ایک مخلص جماعت چاہئے جس کا شب و روز یہ ہی کام ہو پھر اس جماعت میں دو قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے ایک وہ لوگ جو دنیا کی وجاہت رکھتے ہوں دوسرے وہ دین کی وجاہت رکھتے