ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
کے لالے پڑ گئے میں جو اسی کو غنیمت سمجھتا ہوں کہ ایمان ہی سالم رہے ـ جاہل صوفیہ اور دنیا دار پیروں کی حالت ( ملفوظ 122 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بیحد حمایت کا الحمد اللہ میرے اندر مادہ ہی نہیں شریعت میری فطرت ہے اسی لئے جہلا صوفیہ پر رد و نکیر بھی زور و شور سے کرتا ہوں چناچہ بعضوں کی یہ حالت ہے کہ انہوں نے بالکل شریعت کے مقابلہ میں ایک مخترع طریق اختیار کر رکھا ہے ان کے یہاں کوئی چیز ایسی نہیں جس میں کچھ نہ کچھ جہل شامل نہ کر دیا گیاـ ہو حضرت مولانا یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جاہل صوفی کا قول اس کی توجیہ میں بیان کیا کہ حضرت غوث اعظم کا لقب دستگیر کیوں ہے سو توجیہ یہ کی کہ ایک مرتبہ اللہ میاں اور غوث پاک ہوتھ میں ہاتھ ڈالے جارہے تھے اللہ میاں کا پیر پھسلا نعوذ باللہ حضرت غوث پاک نے تھام لیا اس وقت اللہ میاں نے فرمایا کہ دستگیر اس قدر جہل بڑھا ہوا ہے اور اب تو جہل کو ساتھ شرارت بھی ہو گئی ہے پہلے بدعتی ایسے نہ تھے اکثر اللہ اللہ کرنے والے ہوتے تھے نیت خراب نہ تھی اور اب تو شریر ہیں نیت خراب ہے ـ شرارت پر یاد آیا ایک صاحب مجھ سے کہتے تھے کہ کاٹھیا واڑ میں میرے متعلق یہ مشہور کر رکھا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے منع کرتا ہے ـ لاحول ولا قوۃ الا باللہ اب اس کا کیا علاج خیر عوام تو عوام ہی ہیں انکی کیا شکایت ان کے لکھے پڑھے ان سے زیادہ بگڑے ہوئے ہیں جیسے ایک بزرگ کا قول ہے کہ شیعوں کے عوام تو فاسق ہیں اور خواص کافر کیونکہ عوام کو تو کچھ خبر نہیں اور خواص جان کر سب کچھ کرتے ہیں اسی بناء پر ایک تجربہ کار صاحب کہا کرتے تھے کہ حیدرآباد دکن کے امراء تو جنتی اور مشائخ دوزخی ہیں اس لئے کہ امراء مشائخ کے ساتھ دین کہ وجہ سے تعلق رکھتے ہیں اور مشائخ امراء کے ساتھ دنیا کی وجہ سے ایسے مرید نے پیر سے کہا تھا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے وہ میری انگلیاں تو پاخانہ میں بھری ہیں اور آپ کی شہدا میں پیر بولے کہ ٹھیک ہے ہم ایسے ہی ہیں اور تو دنیا کا کتا مرید نے کہا کہ ابھی خواب پورا تو ہو جانے دیجئے جبھی تعبیر دیجئے یہ دیکھا کہ میں آپ کی انگلیاں چاٹ رہا ہوں اور آپ میری پیر بہت بگڑے واقعی ترجمانی کی حقیقت یہ ہی ہے کہ مرید بیچارہ تو پیرسے دین حاصل کرنا چاہتا ہے اور پیر مرید سے دنیا ـ خالی مشورہ دے کر کاموں سے گریز ( ملفوظ 123 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ فلاں مضمون کا ایک