ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
بعد کسی پیر یا شیخ کو اپنے مرید پر کس طرح اعتماد ہوسکتا ہے کہ تحریک خاص پر گرانی نہ ہو گی کیا منہ ہے کسی کا جبکہ حضور کا یہ خیال ہے کہ ہزاروں میں سے کم ایسے ہونگے جو خدمت کر سکیں گے باوجود اس کے صحابہ جان نثار تھے قربان جایئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کیسی پاکیزہ تعلیم فرما گئے ـ دین میں نظر آنے والی دشواریوں کی مثال ( ملفوظ 174 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل لوگوں کو دین سے توحش ہے اس کا سبب جہل و کسل ہے اگر علم صحیح و طلب صادق ہو تو دین میں کوئی دشواری اور تنگی پیش آ سکتی ہے مجھے تو اس باب میں اس قدر شرح صدر ہے کہ میں اس پر قسم کھا سکتا ہوں جتنی دشواریاں دین میں نظر آرہی ہے ہیں اگر ارادہ کرو اور عمل شروع کردوں تو میں سچ عرض کرتا ہوں اور خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سب دشواریاں ہٹتی چلی جائیں میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ جنگل میں دیکھا ہوگا یا کسی پختہ سڑک پر کہ راستہ کے دونوں طرف کے درخت ہوتے ہیں اور دور سے نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگے چل کر دونوں طرف کے درخت آپس میں ملے ہوئے ہیں اور راستہ بند ہے اب یہ اس کو دیکھ ہر اس زدہ کھڑا ہے کوئی مبصر آیا اس نے دریافت کیا کہ کیوں ہراس ہے کہتا ہے ک راستہ آگے بند ہے منزل مقصود پر کیسے پینچوں گا وہ کہتا ہے کہ جہاں تک راستہ کھلا ہے وہاں تک تو چل اور پہنچ پھر آگے دیکھنا اب وہاں پہنچ کر جس راستہ کو بند سمجھتا تھا اتنا ہی اور راستہ بھی کھلا ہوا نظر آیا لیجئے کام بن گیا جب تک چلنا شروع نہ کیا تھا وقت تک راستہ بند نظر آرہا تھا اگر چلنا شروع کرو خود بخود درخت اور پہاڑ سب ہٹتے نظر آئیں گے اور واقع میں وہ پہاڑ ہی نہیں تھے محض تمہارا خیال اور وہم تھا اسی کو فرماتے ہیں ـ اے خلیل اینجا ارودود نیست جز کہ سحر و حذعہ ، نمرود نیست ، طلب اور ہمت پر جبکہ خلوص کیساتھ ہو بڑے بڑے پہاڑ حباء منثتورا ہو کر میدان بن ہو جاتے ہیں اسی کو فرماتے ہیں ـ گر رخنہ نیست عالم را پدید خیرہ یوسف وارمی باید دوید ( اے خلیل ابراہیم یہاں شعلے اور دھواں نہیں ہے سوائے نمرود کے مکر و فریب کے اور کچھ نہیں ہے 112 اگر عالم میں راستہ نظر نہیں آتا مگر یوسف علیہ السلام کی طرح بھاگنا چاہئے خود بخود راستہ کھلتا چلا جاوے گا ـ 12 ـ