ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
جائیں تو بڑی سہولت ہو فرمایا کہ یہ تو کبھی خیال نہیں آیا کہ لکھ کر تعویذ رکھ لئے جائیں مگر سہولت کی ایک صورت اس سے بھی زیادہ تجویز کی تھی کہ جو شخص تعورذ لینے آئے اسکو بسم اللہ لکھ کر دیدیا کرونگا نہ لوگ سوال و جواب کی گڑبڑ میں پڑیں گے نہ میں الجھونگا اسکے بعد ایک روز دو شخص آئے میں نے بدون ان سے دریافت کئے بسم اللہ لکھ کر تعویذ دیدو یا وہ لے کر چلے گئے میں اس تجویز پر بہت خوش تھا کہ یہ اچھا طریقہ ہاتھ آیا مجمع میں اس کو بیان کرنے لگا ایک صاحب نے مجھے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے کہ کیا نتیجہ ہو اور آپس میں یہ کہتے جارہے تھے کہ ہم نے کچھ کہا بھی نہیں اور ان کو دلکی خبر ہوگئی میں نے کہا کہ یہ تو اس سے بھی بڑا مفسدہ آخر اس تجویز کو چھوڑ دیا لوگ بھی بڑے ہی حضرات ہیں ان کا کہاں تک کوئی انتظام کرے ـ چشتیہ کے یہاں فنا اول قدم ہے ( ملفوظ 348 ) ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ایک شخص مجھے کہتے تھے کہ حضرات علما دیوبند درویش ہیں مگر اپنے کو چھپاتے ہیں فرمایا کہ یہ تو درویش کے لوازم سے ہے ایسے سمجھنا لغو نہیں خصوص چشتیہ کے یہاں تو شہرت کی سخت ممانعت ہے وہ اس کو حجاب سمجھتے ہیں چشتیہ میں فنا کا بہت زیادہ غلبہ ہے اپنے کو مٹائے ہوئے ہیں وہ نہ کشف کو کمال سمجھتے ہیں نہ کرامت کو نہ الہام کو انکے یہاں فنا ہو جانا مٹ جانا اول قدم ہے بس انکی تو یہ حالت ہے ـ عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت ہچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت تیغ لا در قتل غیر حق براند در نگر آخر کہ بعد لاچہ ماند ماند الا اللہ باقی جملہ رفت مرحبا اے عشق شرکت سوزتفت امراء کی طرف رغبت ٹھیک نہیں گو نیت صحیح ہو ـ ( ملفوظ 349 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل درویشوں کی دو قسمیں ہیں ایک محق ایک مبطل پھر محق کی دو قسمیں ہیں ایک محقق ایک غیر محقق باستثناء محققین کے کہتا ہوں کہ آج محقق بھی اسکی کوشش کرتے ہیں کہ امراء سے تعلق ہو باوجودیکہ وہ ال حق ہیں دکاندار نہیں مگر پھر بھی اسکی کوشش کرتے ہیں کہ امراء سے تعلق ہو گو انکی نیت بری نہیں مگر پھر بھی اس مذاق کا ضروری زیادہ ہے اس لئے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ اس سے بہت سختی کے ساتھ نفرت رکھتے تھے لوگوں کو معلوم نہیں کہ ان لوگوں سے تعلق رکھنے میں گو حب دنیا بھی نہ ہو تب بھی بڑا مفسدہ ہے جسکا