ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
اپنی غلطی کی تاویلیں نہیں کر سکتا ـ محبت کا یہی اقتضاء ہے کہ وہ محبوب سے اونچ نیچ نہیں کرتا ایسا کرنا خود علامت ہے ـ عدم محبت کی ـ غزوہ تبوک میں بعض صحابہ شریک نہ ہوئے تھے ـ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو منافقین نے تو تاویلیں کیں ـ کسی نے کہا بیوی بیمار تھی ـ کسی نے کہا کہ کھیتی پک رہی تھی مگر کعب ابن مالک جس وقت حضور کے سامنے آئے کچھ بھی تاویل نہیں کی اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں کسی اور بادشاہ کے سامنے ہوتا تو ایسی بات بناتا کہ مجھ پر جرم ثابت نہ ہوتا مگر سچی بات یہ ہے کہ کوئی عزر نہ تھا ـ محض سستی تھی ـ حضور نے فرمایا انہوں نے نے سچ بولا ہے حکم فرمایا کہ کوئی مسلمان اس سے نہ بولے اور دو صحابی اور بھی تھے ـ ان کا بھی یہی معاملہ ہوا ایک صاحب نے حضرت والا سے عرض کیا کہ جب حضرت کعب بن ابن مالک نے سچ بول دیا تھا ـ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان سے بولنے کو کیوں منع فرمادیا ـ فرمایا کہ حضور اپنی طرف سے تھوڑا کچھ کر رہے تھے جو وحی سے حکم ہوتا تھا ـ فرمادیتے تھے نیز پورے طور پر پاک کس طرح ہوتے ـ بعض زخم تو آپریشن ہی سے صاف ہوتا ہے ـ غرض پچاس دن تک اسی حالت میں رہے ـ ایک مسلمان بھی ان سے نہیں بولا بڑا طویل قصہ ہے اس میں یہ بھی ہے کہ کعب ابن مالک فراماتے ہیں کہ مجھ کو اس زمانہ میں بڑی فکر یہ رہی کہ اگر میں حضور کے سامنے مر گیا ـ اسی حات میں تو حضور میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھیں گے ـ اور اگر حضور کی میرے سامنے وفات ہوگئی تو پھر مجھے عمر بھر کوئی مسلمان نہیں بولے گا میں ساری عمر یونہی رہا یہ یقین کے ساتھ اتنا جانتے تھے کہ صحابہ اس قدر جان نثار ہیں کہ حضور کی وفات کے بعد بھی حضور کے حکم کے خلاف نہ کریں گے اور آجکل یہ رنگ ہے لوگ اپنے مشائخ کے ساتھ تاویلیں کرتے ہیں ـ جھوٹ بولتے ہیں ـ میرے سامنے اپنی غلطی کی کوئی تاویل کرتا ہے میں تو کہہ دیتا ہوں کہ جب تم میں یہ امراض نہیں تو پھر آئے کیوں اور اصل سبب ان تاویلات کا یہ ہوتا ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس کے سامنے بات کھل گئی یا امراض ظاہر ہو گئے تو اس کی نظر میں ہماری حقارت اور ذلت ہوگی ـ استغفراللہ کیا ایسا شخص کسی کو ذلیل سمجھے گا جو خود ہی اپنے کو سب سے بدتر اور ذلیل سمجھتا ہے ـ اور سب کو معزز سمجھتا ہوفضول اسکے سامنے معزز بننا چاہتے ہیں ـ عشق عجیب چیز ہے ( ملفوظ 266 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اللہ والوں نے بڑا خیال رکھا ہے کہ ایسی جگہ رہیں کہ جہاں ان کو کوئی پہچانے نہیں ـ حیدرآباد کے ایک بزرگ تھے اجمیر میں ناشناسائی کی حالت میں