ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
فہمی ہے ـ بعض لوگ چند روز دعاء کر کے چھوڑ بیھٹتے ہیں کہ ثمرہ تو مرتب ہوتا ہی نہیں ـ کیا دعا کریں - میں کہتا ہوں کہ اچھا پھر اور کونسا تلاش کیا ہے ـ جہاں ثمرہ مرتب ہوگا اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کے پاس صندوق کی کنجی ہے - اس سے کہتے ہیں کہ قفل کھول دے ـ وہ کسی مصلحت سے نہیں کھولتا ـ پھر دوبارہ کہتے ہیں وہ تب بھی نہیں کھولتا مگر صندوق جب بھی کھلے گا اسی کے کھولنے سے کھلے گا ـ اس لئے کہ اس قفل کی کنجی اسی کے پاس ہے ـ بس دعاء کی مثال ایسی ہی حق سبحانہ تعالی ہی کے ہاتھ میں سب کچھ ہے - ان ہی کی عطاء سے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہو ـ بدون ان کی عنایت اور رحمت کاملہ کے دوسری کوئی سبیل کامیابی کی ہی نہیں مگر صرف اتنی بات ہے کہ بعض مرتبہ نہ کھلنا ہی مصلحت ہوتا ہے تو اس سے مایوسی نہ ہونا چاہیئے ـ دوسری مثال مثلا مل کا پھاٹک گاڑی آنے کے وقت بند ہو جاتا ہے ـ کسی نے یہ کہہ دیا آٹھ بج کر دس منٹ پر کھلنے کا معمول ہے ـ یہ دوسری طرف جانے کے لئے اس کے انتظار میں ہے مگر جب وہ وقت آیا کسی مصلحت سے نہیں کھلا تو کیا وہ اس کا کوئی نوکر ہے ممکن ہے کہ ابھی ریل نہ آئی ہو ـ اس لئے پھاٹک بند ہے ـ سو ایسے میں اگر موٹر والا آجائے اور کہے کہ کھول دو سو بعض دفعہ چوکیدار رعایت کر کے کھول دیتا ہے اور اسی وقت اوپر سے ریل آجاتی ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ نہ کھولنا ہی حکمت تھا کھولنا غضب ہو گیا ـ موت کی تیاری اور وحشت ( ملفوظ 134 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بر ہو بحر ہو حضر ، ہو سفر ہو ، پہاڑ ہوں ، موت کے لئے سب یکساں ہے ـ مگر اس کے نہ علم میں ہے نہ قدرت میں سو بعض لوگ جو زندگی ہی میں اپنے لئے قبر وغیرہ اہتمام کر لیتے ہیں ـ محض لغو ہے کیا خبر کہ کہاں موت واقع ہو اور کس طرح ہو موت کے لئے اس فضول اہتمام کی ضرورت نہیں ـ البتہ بعد الموت کے جو واقعات پیش آویں گے ـ اس کے لئے ہر وقت تیار رہنے اور اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ـ اسی طرح بعض لوگ ان رسمی اہتمام کرنے والوں کے مقابلہ میں موت سے اس قدر خائف ہیں کہ اسکا نام لینا تک گوارا نہیں کرتے ـ یہ بھی مہمل بات ہے وہ تو نا گریز ہے ـ شاہی زمانہ میں قلعہ کے ایک دروازہ کا نام خضر دروازہ رکھا گیا تھا جس سے جنازہ گزرتا تھا گو نام سے بھی وحشت تھی ـ اسی ترح ایک ضعیف العمر عورت جس کے نہ منہ میں دانت تھے ـ نہ ماتھے پر آنکھ تھی ، کمر میں خم تھا ، اس کو کسی لڑکی نے کہہ دیا کہ بڑھیا خدا کرے تو مرجا تو اس کی شکایت اپنی ایک ہم عمر بڑھیا سے کی مگر الفاظ یہ تھے کہ فلانی