ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
عشاق کی یہ شان ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کو دوسری طرف متوجہ نہ کرے ـ یہاں تک لکھا ہے کہ مرید شیخ سے درسی کتاب نہ پڑھے اور نہ پیر اپنے مرید کے خانگی معاملات میں دخل دیا ـ غریبوں کو کچھ خبر تو ہے نہیں ـ مرید ہونے آ جاتے ہیں اگر متنبہ کرتو ہوں اور طریق بتلاتا ہوں اس غرض سے کہ راہ پر پڑیں مقصود معلوم ہو کہ کیونکہ طریق مفقود ہو رہا ہے ـ اس لئے اس کے آداب بھی نہیں تو سخت اور بدخلق اور خدا جانے کیا کیا کہتے ہہیں اجی اگر طبیب شفیق ہے اور حمد درد خیر خواہ ہے تو چاہے منہ بناؤ یا روؤ وہ مرض کی تشخیص کر کے اگر کڑوی دوا مفید ہوگی تو شاہترہ چرائتہ حظل ہی تجویز کرے گا اگر سو دفعہ غرض پڑے پیو ورنہ جاؤ چلتے بنو اور جو سیب کا مربا ورق نقرہ لپیٹ کر دے اس کو مربی بناؤ ـ یہاں تو خود طالب کو بجائے سیب کے چھیل چھال کر کانٹ چھانٹ کر اس کو مربہ بنایا جاتا ہے اور یہ جو لکھا ہے کہ مرید شیخ سے سبق نہ پڑھے وجہ اس کی یہ ہے سبق میں قیل و قال ہوتا ہے ـ جس سے مبادا شیخ کو انقباض ہو جائے اور فیض باطنی سے محروم ہو جائے اور جو لکھا گیا ہے کہ شیخ مرید کے خانگی معاملات میں دخل نہ دے اس میں یہ راز ہے کہ شیخ کو اصل واقعات سے یا مرید کے مصلحت کے خلاف ہو اور اس سے اس کو شیخ سے کیدگی بھی پیدا ہو جائے ـ اس صورت میں بھی باطنی نفع نہ ہو گا البتہ جس صورت میں یہ علت نہ ہو وہ اس سے مستثنی ہے ـ مثلا ایک شخص بیوی کا نان نفقہ نہیں دیتا ـ شیخ کہے کہ نفقہ دو یہ خانگی معاملات میں دخل دینا نہ سمجھا جائے گا کیونکہ اس میں دوسرا احتمال ہی نہیں ـ طاعت خالصہ کا حکم ہے ـ مطلب یہ کہ فصل قضایا میں یا ان مباحات میں جس میں شرعا دونوں جانب کی گنجائش ہے ـ دخل نہ دے ـ جیسے رشتہ وغیرہ آج کل پیر اکثر ایسا کرتے ہیں کہ ایک مرید کی لڑکی ہے ـ دوسرے کا لڑکا ہے کہتے ہیں کہ ہم فلاں کے لڑکے سے تمہاری لڑکی کا رشتہ کرتے ہیں یا نکاح کرتے ہیں ـ مشائخ نے اس کو منع فرمایا ہے یا اسی طرح کوئی نزاعی معاملہ ہے ـ شیخ سے اس کا فیصلہ کوئی کرانے لگے اس میں بھی ممکن ہے کہ ایک کے خلاف ہو تو اس کو رنج ہوگا اور نفع باطن سے محروم ہو جائے گا ـ اور ان باتوں میں دخل دینا تو بری چیز ہے کہ اس میں دنیا کا رنگ ہے ـ تعلیم جو دین محض ہے ـ اس میں بھی اس قدر احتیاط ہے کہ ہر شخص کی باطنی مصلحت اور اسکی حالت کے مطابق دی جاتی ہے اس کا بھی معین ضابطہ نہیں ـ حضور کے چند لفظی لطائف ( ملفوظ 248 ) ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اکثر کئی کئی مرتبہ گزرنے کا اتفاق ہوتا ہے مگر