ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
استفسار کے جواب میں یہ کہنا کہ جیسے رائے ہو نہایت بد تہزیبی ہے ـ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ استفسار لغو ہے کیا کلام کی معاشرت کا کوئی ادب نہیں ـ استفسار پر اپنی رائے کو ظاہر کرنا چاہئے ـ دوسرے لغو پر بوجھ ڈالنا خلاف تہزیب ہے ـ کام تو اپنا اور بوجھ دوسرے پر یہ کیا لغو حرکت ہے ـ مجھے کیا خبر کسی کی مصلحت کی اور جب خبر نہیں ـ میں کیا رائے دے سکتا ہوں ـ آدمی کو فہم سے کام لینا چاہئے ـ دوسرے پر بوجھ ڈالنا یا ستانا یہ کو نسی عقلمندی کی بات ہے لوگوں میں فہم کا اس قدر قحط ہو گیا ہے کہ موٹی موٹی باتوں کو نہیں سمجھتے ـ یہ کونسی باریک بات تھی ـ جس کا جواب خود نہیں دے سکے ـ مجھ پر بار ڈالنا چاہتے ہیں ـ خود تجویز کر کے مجھ کو بتلانا چاہئے ـ اس پر بھی وہ صاحب خاموش رہے ـ حضرت والا کے مکر سہ مکر فرمانے پر بھی کوئی جواب نہیں دیا ـ فرمایا کہ اسوقت آپ یہاں سے اٹھ جائیے ـ آپ تکلیف پر تکلیف پہنچا رہے ہیں ـ جس وقت جواب سمجھ میں آجائے ـ اسوقت آئیے اور آکر مجھ کو اطلاع کر دیجئے وہ صاحب مجلس سے اٹھ کر چلے گئے ـ 15 ذی الحجہ 1350 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم جمعہ حضرت کی تواضع ( ملفوظ 60 ) ایک صاحب کی غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں تو خود ان آنے والے حضرات کی برکت سے م ستفیض ہونے کا متمنی رہتا ہوں ـ اس لئے کہ مجھ کو اپنی حالت خود معلوم ہے ـ کبھی اس کا وسوسہ بھی نہیں ہوا اور نہ آتا ہے ـ کہ مجھ سے انکو کوئی نفع پہنچ رہا ہے ـ حتی کہ عین مواخزہ کی حالت میں بھی اپنے مخاطب کو اپنے سے افضل سمجھتا ہوں ـ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ـ مگر اصلاح کی ضرورت سے تادیب کرنا پڑتی ہے ـ امام فن حضرت حاجی صاحب کے دو ملفوظ ( ملفوظ 61 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ہمارے حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کسی نیک عمل کر لینے کے بعد پھر جب کسی نیک عمل کی توفیق ہو تو یہ اس کی علامت ہے کہ پہلا عمل قبول فرما لیا گیا ـ تب ہی تو پھر جب کس دن یک عمل توفیق ہو تو یہ اسکی علامت ہے کہ پہلا عمل قبول فرما لیا گیا ہے ـ تب ہی تو پھر عمل کی توفیق نصیب ہوئی ورنہ مطر و دو مخزول ہوتا ہے ـ حضرت اپنے فن کے امام تھے ـ مجتہد تھے ـ عجیب و غریب تحقیقات ہوتی تھیں ـ ایک شخص نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت ذکر و شغل کرتا ہوں مگر کچھ نفع نہیں ہوتا ـ فرمایا کہ بھائی ذکر میں مشغول ہو اللہ اللہ کرنیکی توفیق دے دی گئی ـ یہ کیا تھوڑا نفع ہے ـ