ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
دست بکشا جانب زنبیل ما ، آفرین بر دست و بر بازوئے تو حضرت سلطان جی کے جنازہ کے ساتھ ان کے ایک مرید نے ولولہ میں یہ اشعار پڑھنے کئے ـ سرو سیمینا بصحرامی روی ، سخت بے مہری کہ بے مامی روی آفرین بر دست و بر بازوئے تو سخت بے مہری کہ بے مامی روی اے تماشا گاہ عالم روئے تو تو کجا بہر تماشا می روی ( ہم مفنس ہیں تیرے در پر آئے ہیں ـ اپنے چہرہ کا تھوڑا سا جمال دکھا دیجئے ـ ہماری جھولی کی طرف ہاتھ بڑھائے آپ کے دست و بازو پر آفرین ہو ـ 12 اے محبوب تو بڑا ہی بیوفا ہے کہ بغیر ہمارے جنگل کی طرف سیر و جارہا ہے تو تو سارے عالم کے لئے تماشا گاہ ہے پھر تو سیر و تماشا کے لئے جا رہا ہے ـ 12 ـ ) حضرت سلطان جی کا کفن سے باہر ہاتھ نکل آیا سماع ایسا تو ہو کہ مرنے کے بعد بھی سماں ( لطف ) دکھا وئے ـ 11 صفر المظفر 1351 ھ مجلس بعد نماز جمعہ ، طبعی پریشانی مضر نہیں ( ملفوظ 447 ) ایک خط کے جواب کے سلسلہ میں فرمایا کہ ایک بزرگ کا الہام ہے حق تعالٰی فرماتے ہیں اے بندہ رزق کی وجہ سے کیوں پریشان ہے یہ تو وہ چیز ہے کہ اگر تو یہ بھی دعا کرے کہ اے اللہ مجھ کو رزق نہ دے تب بھی دیں گے نہ کہ تو مانگے اور ہم نہ دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے واقعی اگر کوئی شخص تمام دن تسبیح لیکر یہ رٹا کرے کہ اے اللہ مجھ کو کھانے کو نہ دیجئیو تب بھی ملے گا مگر رزق کی اسی پریشانی سے کسی پر ضعف ایمان کا حکم نہ لگا سکتے امور طبعیہ میں انسان معذور رہے اور ان طبعیہ کے مناشی بھی اکثر واقعات غیر اختیاریہ ہوتے ہیں بعض واعظین بڑی زیادتی کرتے ہیں سطحی نظر سے مسلمانوں پر غلط فتوی لگا دیتے ہیں چناچہ وعظوں میں اکثر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو خدا پر اتنا بھی بھروسہ نہیں جس قدر ایک دعوت کر دینے والے پر ہوتا ہے کہ کوئی دعوت کر دے تو کھانا نہیں پکواتے پورا یقین ہوتا ہے کہ کھانا آویگا اور خدا تعالٰی کے وعدہ پر یقین نہیں مگر ان واعظ صاحب کو یہ معلوم نہیں کہ یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ جس وعدہ میں وقت اور پیسہ مبہم ہو وہاں طبعی پریشانی ہوتی ہے ـ مثلا دعوت کرنے والا ہی یہ کہدے کہ کسی جگہ سے کھانا آویگا تو ایسی دعوت