ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
وقت ایسے تکلفات نہ تھے پس مدلول اس کا عدم الفعل ہے نہ کہ ترک الفعل اب اگر کوئی تشتری میں کھائے یا چپاتی کھائے جائز ہے مگر از راہ افخار نہ ہو میز پر کھانے میں چونکہ افخار و تشبہ کا قبح ہے وہ اس مستقل دلیل سے ممنوع ہوگا سلطنت شخصی یا جمہوری ؟ ( ملفوظ 556 ) فرمایا بعض لوگ آیت : وشاورھم فی الا مر سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ سلطنت شخصی ہو ما خلاف قرآن کے ہے شاورھم سے کثرت رائے مفہوم ہوتی ہے جو حاصل ہے سلطنت جمہوری کا مگر اس استدلال کی غلطی خود اس آیت کے اگلے جزو سے ظاہر ہے ـ واذا عزمت فتوکل علی اللہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گو مشورہ مطلوب ہے مگر بعد مشورہ مدار محض آپ کے عزم اور رائے پر ہے اس سے تو بالعکس سلطنت کا شخصی ہونا ثابت ہوا البتہ یہ ضروری ہے کہ شخصی واحد پر مشورہ کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن مدار کثرت رائے پر نہیں رکھا گیا بلکہ اس مستشیر ( مشورہ لینے والے ) اطلاق آیت سے اس کی بھی اجازت ہے کہ وہ بمقابلہ جماعت کے ایک کے مشورہ کو قبول کر کے اس کے موافق عزم کے لے ـ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا ( ملفوظ 557 ) فرمایا یہ اعتراض کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا ـ محض غلط ہے اس وجہ سے کہ اسلام میں اول جزیہ حکم ہے جب جزیہ قبول کر لیا اب تلوار مسلمان نہیں اٹھا سکتا ـ اور اس سے بھی قطع نظر کی جائے تو قابل غور ہے کہ اسلام نے مخالفین کے ہاتھ میں ایک بہت بڑی ڈھال دے رکھی ہے وہ یہ کہ جب کوئی کلمہ پڑھ لے فورا چھوڑ دو تو اس طرح پر ہر کافر وقت پر مسلمان کی تلوار کو بند کر سکتا ہے مثلا کسی کافر نے کسی مسلمان پر خوب ظلم کیا ہو ـ ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے ہوں اس کے اہل و عیال کو قتل کر ڈالا ہو غرض ہر طرح کا ظلم کیا ہو ـ اور باوجود ان مظالم کے پھر کون ایسا ہے کہ موقع ملے اور قدرت ہو اور بدلہ نہ لے ـ مگر اسلام میں ایسا حکم ہے کہ اگر اس شخص کا یا اس کے کسی یا رو مددگار کا اس پر قابو پڑ جائے اور وہ اس کا کام تمام کرنا چاہئے اور زبان سے کلمہ شریف پڑھ لے اور قرائن سے معلوم بھی ہو کہ دل سے نہیں پڑھا تب بھی حکم ہے کہ تلوار مت اٹھاؤ یہ کتنی بڑی ڈھال مخالف کے ہاتھ میں ہے پس جس مذہب کا یہ قانون ہو اس میں کیسے ممکن ہے کہ اسکی ترقی تلوار سے ہو سکے اب فرمائیے کہ اسلام بزور شمشیر کیونکر پھیلا ـ