ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
سے کی ہو گیا اب ان حضرات کو آنکھیں ڈھونڈتی ہیں اور جواب موجود ہیں اور جگہ سے پھر بہتر ہیں مگر ہیں عملی قوت گھٹ گئی باقی علمی قوت اب بھی ہے اور ان حضرات کی عملی قوت غالب تھی علمی قوت پر ـ حضرت حاجی صاحب کی حضرت تھانوی سے محبت ( ملفوظ 524 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں نے درسی کتابوں کے سوا اور کوئی کتاب نہیں دیکھی یہ دوسری بات یہ ہے کہ کسی مضمون کی ضرورت ہوئی اسکی تلاش میں کوئی اور مضمون بھی نظر سے گذرا گیا اس لئے کہ کوئی نشانی تو اس مقام پرہوتی نہیں کہ کھول کر اس کو ہی دیکھ لیا جائے ہاں بالاستیعاب کوئی کتاب بھی نہیں دیکھی کچھ دیکھی اور چھوڑ دیا ـ حالانکہ مجھ کو تصوف کا بیحد شوق ہے مگر کوئی کتاب اس کی بھی پوری نہیں دیکھی اور چھوڑ دیا مگر یہ سب ظاہرا اپنے بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ اور حقیقۃ حق تعالی کا فضل ہے حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ دل سے یہ چاہا کرتے تھے کہ یہ بات کو سمجھ لے سو جو ان حضرات نے چاہا وہ ہو گیا شیخ کو اپنے معتقد سے جتنی محبت زیادہ ہوگی اتنا ہی فیض ہوگا عادت اللہ اس طرح ہے حضرات کے تعلق کی یہ حالت تھی کہ ایک مرتبہ ند وہ والوں نے حضرت سے میری شکایت کی کہ وہ ہم سے مخالفت کرتے ہیں حضرت نے جواب میں فرمایا کہ اس میں تو مادہ ہی نہیں مخالفت کرنے کا یہ دیکھئے حضرت نے کس طرح پہچان لیا حالانکہ میں میں نے کبھی کوئی بات حضرت کے سامنے نہیں بگہاری یہ حضرت کا نور قلب اور فراست تھی اہل ندوہ نے حضرت سے درخوست کی کہ ہمارے ساتھ شریک نہیں اس کو لکھ دیجئے کہ وہ ہمارے ساتھ ہو جائے حضرت نے مجھ کو تحریر فرمایا کہ وہاں کی مصلحت اور معاملات کو نہیں سمجھ سکتے ہو جو مصلحت ہو اس پر عمل کیا جائے وہ خط ندوہ والوں نے میرے پاس بھیج دیا میں نے دیکھ کر کہا کہ تم نے تو میرے خیال پر رجسٹری کرادی اب میری مصلحت یہی ہے کہ میں شریک نہ ہوں یہ حضرت کی فہم و فراست تھی کہ مجھ کو مجبور نہیں کیا ـ کیا ٹھکانا ہے اس بصیرت کا لکھتے ہیں کہ جو وہانکی مصلحت ہو وہ کرنا یہ شان ہوتی ہے ان حضرات کی تحقیق کی کہ غائب چیز میں قطعا دخل نہیں فرمایا ایک زمانہ میں حضرت سے حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کی بہت شکایت کی گئی حضرت نے مولانا کو میرے ہاتھ کہلا کر بھیجا کہ تم بالکل بے فکر رہو مجھ پر شکایت کا کوئی اثر نہیں مجھ کو تمہارے ساتھ حب فی اللہ ہے سو جیسے اللہ کو بقاء ہے حب فی اللہ کو بھی بقاء ہے عجیب شان کی تحقیق ہے اگر تمام دنیا کے مدبر اور فلاسفر بھی جمع ہو جائیں تو ایسی بات نہیں کر سکتے اور حضرات کے یہاں یہ روزانہ کی باتیں تھیں واقعہ یہ ہے کہ حضرت اپنے فن کا امام تھے مجتہد تھے مجدد تھے ـ