ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
جملہ اوراق و کتب درناکن سینہ راز نور حق گلزار کن ( ساری کتابوں کو آگ لگا دو سینہ کو نور حق سے گلزار بنا لو ( یعنی صرف علوم ظاہری بغیر نور باطن کے کار آمد نہیں ہیں ) اہل علم کو دو مرحلے طے کرنے پڑتے ہیں ایک تو کتابوں کا ختم کرنا پھر دوسری معنے کو ختم کرنا یعنی بھلا دینا میں آپ کو ایک نہایت مفید اور کار آمد مشورہ دیتا ہوں جو تجربہ کی بناء پر ہے وہ یہ کہ چند روز اگر آدمی خاموش رہے تو بصیرت پیدا ہو جاتی ہے بدون چند روز خاموش اختیار کئے بصیرت نہ ہوگی اور اپنی اصلاح کے لئے کسی کو تجویز کرنے میں کسی طرف رائے قائم نہیں کر سکتا اگر کی بھی تو قابل اعتماد نہ ہو گی یہ اس وقت میں نے آپ کو نہایت مفید مشورہ دیا ہے بشرطیکہ آپ اس کی قدر کریں اور اسکو آپ اپنا دستورالعمل بنائیں ـ نفلی عبادات میں کمی زیادتی شیخ کے مشورہ سے ہونی چاہئے ( ملفوظ 22 ) ایک مولوی صاحب کو سوال کے جواب میں فرمایا کہ تلاوت قرآن اور کثرت نوافل سب سے افضل عبادت ہے اور یہ مقاصد ہیں ان ہی دو چیزوں کی صلاحیت کےلئے طریق میں ذکر و شغل کی تعلیم ہوتی ہے اور وہ سب مقدمات ہیں اور ان میں شیخ بھی ضرورت ہے اس لئے کہ اس میں بعض اوقات کچھ خطرات بھی پیش آتے ہیں اور مقاصد میں کوئی خطرہ نہیں پھر یہ دونوں ذکراللہ پر بھی مشتمل ہیں ان دونوں کی بھی روح اعظم ذکر ہی ہے وہ خود ان میں مضمر ہے باقی مستقل اذکار مثلا سبحان اللہ ، یا لا الہ الا اللہ ان سب سے تلاوت قرآن و نماز افضل ہے نماز اور قرآن کی آجکل کے اکثر مشائخ کے دل میں وقعت و عظمت نہیں تمام زور ذکر پر دیا جاتا ہے حالانکہ ان میں ایک لطیف فرق بھی ہے وہ یہ کہ جب کوئی ذکر زیادہ کرتا ہے اسمیں عجب پیدا ہو جاتا ہے اور نماز اور تلاوت قرآن سے عجب کم پیدا ہوتا ہے اس کا اصلی سبب یہ ہے کہ اکثر عوام ذکر کو خواص کا فعل سمجھتے ہیں اور نماز و تلاوت قرآن کو عوام کا فعل سمجھتے ہیں تھوڑی سی دیر بیٹھ کر ذکر کرلیا الا اللہ الااللہ یا للہ بس خواص میں داخل ہو گئے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا ایسی حالت میں ذکر و شغل چھوڑ دینا چاہیئے مگر یہ سب امور شیخ کی تجویز پر موقوف ہیں کہ کس وقت کیا مناسب ہے چناچہ بعض اوقات وہ یہ مشورہ دے گا ـ کہ خاص ہیت سے بیٹھ کر ذکر کیا جاوے چلتے پھرتے پڑھ لیا کروکیونکہ اس طور سے تمکو کوئی ذاکر نہ سمجھے گا یہ گردن جھکا کے بیٹھنا اور ادھر ادھر گردن ہلانا اس سے لوگ ذاکر سمجھتے ہیں غرض کہ ہر حالت میں شیخ کامل کی ضرورت ہے اپنے اپنے کو اس کے سپرد کردینے کے بعد مطمئن ہو جانا چاہیئے ـ