ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
آج کل کی تصانیف ( ملفوظ 246 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ تصنیف کا کام بھی بہت مشکل کام ہے ـ آج کل ہر شخص مصنف بنا ہوا ہے کوئی معیار ہی نہیں رہا ـ قلم ہاتھ میں لیا اور جو جی میں آیا لکھ مارا نہ اصول کی خبر ہے نہ فروع کی ـ میں آجکل ایسی ہی بے اصول کتاب دیکھ رہا ہوں ـ بڑے مشہور مصنف کی تصنیف ہے مگر محض ملمع آجکل بڑا کمال یہ ہے کہ الفاظ زوردار ہوں چاہے مدلول صحیح ہو یا غلط اس سے کوئی بحث نہیں ـ جن باتوں کی اس کتاب میں ثابت کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ سوچ سوچ کر یہ تلبیس باتیں بنائیں ہیں ـ استدلال کی دو صورتیں ہیں ـ ایک صورت تو یہ ہے کہ آزادی سے دلائل پہلے ذہن میں آئیں اور نتیجہ ان کے تابع ہوا اور ایک صورت یہ ہے کہ دلائل پہلے سے ذہن میں نہیں ـ پہلے ہی سے ثابت کرنا ہے اور اس کے لئے سوچ سوچ کر دلائل کو ذہن میں لایا جاتا ہے ـ ان دونوں صورتوں میں بڑا فرق ہے ـ پہلی ایک خاص قوت ہوتی ہے گو اس میں اجتہادی غلطی ہی ہوگئی ہو اور دوسری صورت میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص محض باتیاں بنا رہا ہے اور یہ فرق معلوم ہو جانا موقوف ہے ـ ذوق صحیح پر بعضی بات وجدان سے معلوم ہوتی ہے بیان کرنے پر قدرت نہیں ہوتی ـ آداب المصلح یعنی شیخ کے آداب ( ملفوظ 247 ) ملقب بہ آداب المصلح ) ایک نو وارد صاحب نے جو اصلاح کی غرض سے آئے تھے اور جن کا تھانہ بھون کی حاضری کا پہلا ہی موقع تھا ـ حضرت والا سے ایک فقہی مسئلہ پوچھا ـ اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ آجکل مصلح باطن سے مسائل فقہی پوچھنے والوں کو باطنی نفع نہیں ہوتا ـ تجربہ سے اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگ بس ان ہی تحقیقات میں رہ جاتے ہیں ـ اصلاح کے متعلق اہتمام کی نوبت ہی نہیں آتی ـ میں خیر خواہی سے عرض کرتا ہوں کہ ان مسائل کی تحقیق کے لئے تو اور بہت جگہ ہیں اور یہاں سے اچھا کام ہو رہا ہے ـ دیوبند ہے ، سہارنپور ہے اور کیا آپ نے یہ سفر مسائل فقہی پوچھنے کے لئے تھا ـ عرض کیا نہیں پھر کیوں بیٹھے بیٹھے جوش اٹھا خاموش نہیں رہا جاتا کیا خاموشی سے پیٹ میں درد ہوتا ہے ـ کیا خاموش رہنا جرم ہے یا اس سے شان میں بٹا لگتا ہے ـ یوں کہئے کہ بک بک کرنے کی باتیں بنانے کی عادتیں پڑی ہوئی ہیں ـ اور یہ بتلایئے کہ اگر آپ نے یہاں آنے کی اجازت لی ہے ـ عرض کیا کہ اس کی اجازت نہیں لی پھر