ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
جگہوں میں بھی نہیں ہوا ـ امام صاحب کے مذہب کی تائید میں حدیثیں جمع کی گئیں اس سلسلہ کا نام اعلاءالسنن ہے ـ ان احادیث پر نظر نہ ہونے سے غیر مقلدوں کو تو شبہ تھا ہی مگر بعض حنفیوں کو بھی شبہ ہو گیا تھا کہ امام صاحب کا مذہب قرآن و حدیث کے مطابق نہیں ـ الحمدللہ کہ کتاب مذکور کے تدوین سے یہ ظاہر ہو گیا کہ کوئی مسئلہ بھی امام صاحب کا قرآن و حدیث کے خلاف نہیں گو اس میں بہت وقت اور بہت کچھ روپیہ صرف ہوا مگر حق تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ انہوں نے اپنے فضل و کرم سے اس کام کو انجام کو پہنچایا ـ الحمدللہ چشتیہ کے یہاں فنا اول قدم ہے ( ملفوظ 253 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ طریق میں اصل چیز تو یہ ہے کہ قلب کا حق تعالی کے ساتھ صحیح تعلق ہو جائے باقی اورسب چیزیں اس کے تابع ہیں اور یہ پیدا ہوتا ہے اس وقت جب شیخ کامل کی تعلم پر بے چون و چرا عمل کرے ـ شیخ اسی چیز کے پیدا کرنے کے لئے جس کے لئے جو مناسب سمجھتا ہے تعلیم کرتا ہے ـ اقویا کے لئے اور تجویز ہوتی ہے ـ ضعفاء کے لئے اور جیسا جس کے لئے تجویز کر دے اس کو چاہیئے کہ وہ اسی میں اپنی مصلحت سمجھے اصل چیز تو وہی ہے کہ جس کو میں ابھی کہہ چکا ہوں کہ قلب کا صحیح تعلق حق تعالی کے ساتھ ہو جائے ـ بس یہی طریق ہے باقی سب کچھ اسی کے پیدا کرنے کی تدابیر ہیں ـ 11 محرم الحرام 1351 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم چہار شنبہ ہندو مسلم اتحاد کی شرائط ( ملفوظ 254 ) ایک مولوی صاحب نے سوال کیا کہ حضرت اگر ہندو مسلمان باہم حاکم محکوم نہ ہوں ـ بلکہ باہم مساوات ہوتو اس وقت مل کر ہندوؤں کے ساتھ کام کر سکتے ہیں ـ فرمایا قواعد سے تو گنجائش معلوم ہوتی ہے مگر اس وقت تجربہ کی بنا پر یہ دیکھا جائیگا کہ اشتراک میں نفع کس کو ہوگا اور ضرر کس کا ـ سو یہ تجربہ یہی کہہ رہا ہے کہ اگر صرف ہندو مسلمان کے ہاتھ میں حکومت آجائے اور تیسری قوم کے بے دخل ہو جانے میں کامیابی بھی ہو جائے تب بھی وہ حکومت ہندوؤں کی ہوگی ـ مسلمانوں کی نہ ہوگی ـ ایک تو ترکیب کی خاصیت سے دوسرے ان کی اکثریت کی وجہ سے تیسرے ان کے طبائع کی حالت پر نظر کر کے اور عقلی طور پر بھی مقصود حکومت عادلہ آمنہ ہے اور ہندو مسلمانوں کے اشتراک میں یہ احتمال ہی نہیں کہ عدل ہو ، امن جیسا کہ ہندوؤں کی کارگزاریوں سے اس وقت ظاہر ہے کہ وہ مسلمانوں کیو ہندستان سے مٹانا چاہتے ہیں یہ اپنے اس دلی مزاق