ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
سب سے زیادہ واضح و ظاہر ہے پھر اسکی دلیل کیسے اور جو دلائل سمجھے جاتے ہیں وہ محض صورۃ دلیل ہیں ہمارے ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے ـ شد ہفت پردہ بر چشم ایں ہفت پردہ بے پردہ ورنہ ما ہے چوں آفتاب دارم ( آنکھوں میں جو سات پردے ہیں یہی معرفت کے لئے حجاب کے لئے حجاب ہو رہے ہیں ( یعنی میں صرف اسباب ظاہری پر نظر کرے حقیقت سے نا آشنا ہورہے ہیں ورنہ مارا چاند ( محبوب ) تو آفتاب کی طرح ظاہر و باہر ہے 12 ـ ) اس لئے موسی علیہ السلام کے جواب میں لن ترانی فرمایا گیا لن اری نہیں فرمایا یعنی میں تو دیکھنے کے قابل ہوں تم میں دیکھنے کی قوت نہیں اس لئے تم نہیں دیکھ سکتے اور جو لوگ رہریت چھوڑ کر صانع ، کے قائل ہوئے ہیں انکا دوسرے دہریوں پر زیادہ مادہ حجت ہے کیونکہ ان پر دونوں حالتیں گزر چکی ہیں ایک مولوی صاحب نے ایک دہری کا واقعہ بیان کیا وہ اکثر ایسے لوگوں کی کتابیں دیکھتے رہتے ہیں وہ کہتے تھے ایک دہری نے خود اپنا واقعہ لکھا ہے کہ میں اپنے اندر تصرف کر کے اپنے وجود کے علاوہ سب چیزوں سے خالی ہو گیا پھر مزید تصرف کر کے اپنے وجود سے بھی خالی ہو گیا مگر پھر بھی ایک چیز مجھکو اپنے اندر محسوس ہوتی تھی اس سے بھی خالی ہونے کی بیحد کوشش کی کہ وہ بھی نکل جائے مگر کامیاب نہ ہوا تب معلوم ہوا کہ جو چیز نفی کرنے پر بھی نہیں نکلتی وہی سبحانہ کی ہستی ہے یہ دیکھ کر خدا کے وجود کا قائل ہوگیا اس اصل پر ایک شبہ کا جواب بھی ہو گیا وہ شبہ یہ ہے کہا الست بربکم قالوا بلٰی میں جو وعدہ لیا گیا ہے تاکہ قیامت میں حجتہ رہے تمام خصوصیات بھی یاد ہوں بلکہ صرف اسکا اثر یعنی مقصود کا ذہن میں ہونا کافی ہے مثلا بچپن میں پڑھا تھا آمدن کے معنی آنا لیکن یاد نہیں مگر باوجود اسکے ایسا یقین ہے کہ طرح زائل نہیں ہو سکتا تو کیا اسکو یاد نہ کہیں گے اسی طرح یوم میثاق کی خصوصیات یاد نہ ہونا مضر نہیں جو اسکا اثر ہے توحید وہ فطرت میں اسقدر مرکوز ہے کہ اسکی نفی محال ہے اس لئے وہ یاد میں داخل ہے اور حجت ہے ـ 9 محرم الحرام 1351 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم دو شنبہ حضرت گنگوہی اور حضرت نانوتوی کے چند واقعات ( ملفوظ 236) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت مولانا قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت