ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
علمی کاموں کے لئے خلوت درکار ہے ( ملفوظ 406 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں مدت سے چاہتا ہوں کہ اور سب کام بند کردوں اور صرف خدمت تربیت ہی کا کام رکھوں مگر میں اس وقت تک اس میں کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ جو ضروری کام ہو رہے ہیں ان کو کیسے بند کروں اور یہ غیر ممکن ہے کہ یہ سب کام بھی کرتا رہوں اور طالبین تربیت سے مجلس بھی گرم رہے ـ مجمع میں مجھ سے کام نہیں ہوتا ـ تنہائی اور یکسوئی میں کام کر سکتا ہوں ـ حتی کہ کام کرنے کے وقت کسی کا آ بیٹھنا میری گرانی کا سبب ہوتا ہے ـ ایک وکیل صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ میں تو مجمع میں بیٹھ کر کام کر لیتا ہوں میں کہا کہ وہ کام ہی کیا ہے یہاں تو دماغی کام ہے ـ وہاں نہ تربیت مضامین ہے نہ تدقیق ، نہ تہذیب ، نہ رطب دیا بس کی تلخیص یہاں تدقیق کی حاجت تربیت ک حاجت تہذیب کی حاجت رطب دیا بس کا فیصلہ غیضیکہ دماغی کام ہے جو مجمع میں بیٹھ کر نہیں ہو سکتا ـ بعض معصیت وقایہ کفر ہوتی ہے ( مکفوظ 407 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جو نوکریاں نا جائز ہیں ـ ان کے کرنے میں مفسدہ ضرور ہے مگر جس کو حلال نوکری نہ ملے اسکے لئے نہ کرنے میں اس سے زیادہ اندیشہ ہے ـ اس لئے کہ افلاس سے بعض اوقات کفر تک نوبت آجاتی ہے ـ تو یہ معصیت کفر کی وقایہ ہو جاتی ہے ـ اس وقایہ کی ایک جزئی یاد آگئی کان پور کے علاقہ میں ایک گاؤں ہے گنجیر وہاں پر مسلمان رئیس تھا ـ اس کا نام تھا ادھارسنگہ میں نے سنا تھا ـ کہ اس گاؤں کے لوگ آریہ ہونے والے ہیں میں ایک مجمع کے ساتھ ان کی تبلیغ کے لئے وہاں گیا تھا ـ ادھار سنگہ سے بھی اس کا ذکر آیا تو اس نے جواب میں کہا کہ ہم آریہ کس طرح ہو سکتے ہیں ـ ہمارے یہاں تو تعزیہ بنتا ہے میں نے کہا کہ تعزیہ بنانا مت چھوڑنا ـ بعض لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا میں نے کہا کہ تم نے غور نہیں کیا ـ یہ شخص جب تک تعزیہ بنائے گا ـ کافر نہ ہوگا ـ تعزیہ بے شک معصیت اور بدعت ہے مگر اس کے لئے تو یہ معصیت اور بدعت وقایہ کفر ہے ـ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک زمانہ میں اجمیر تشریف رکھتے تھے ـ اتفاق سے عشرہ محرم میں ایک مقام پر تعزیہ داروں میں اور ہندوؤں میں جھگڑا ہے ـ کوئی درخت تھا وہاں کے سنی عمائد نے علماء سے استفتاء کیا کہ ہندوؤں کا اور تعزیہ داروں کا جھگڑا ہے ـ اور ہم کو کیا کرنا چاہئے ـ علماء نے جواب دیا کہ کفر اور بدعت کی لڑائی ہے ـ تم کو الگ رہنا چاہئے ـ پھر وہ لوگ مولانا کے پاس دریافت کرنے آئے ـ مولانا