ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
حضرت تھانوی پر حضرت گنگوہی کی شفقت ( ملفوظ 327 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں ایک مرتبہ گنگوہ حاضر ہوا ـ حضرت کی شفقت کی یہ حالت تھی یہ فرمایا کہ تم جب آجاتے ہو ـ دل تازہ ہو جاتا ہے ـ میں نے واپسی کی اجازت چاہی کہ حضرت جاؤں فرمایا کہ اتنی جلدی میں نے کہا کہ کپڑے میلے ہوگئے ہیں ـ زیادہ ٹھرنے کے ارادہ سے نہیں آیا تھا ـ فرمایا کہ کپڑے تو ہم دیدیں گے میں نے عرض کیا کہ حضرت اور بھی کام ہے ـ پھر حضرت نے کچھ نہیں فرمایا ـ حضرت کے کپڑے پہننے کو جی نہیں چاہا ـ بے ادبی معلوم ہوئی ـ توسل کی حقیقت کا انکشاف ( ملفوظ 328 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مجھ کو توسل کی حقیقت معلوم نہ تھی ـ سوال کرنے سے بھی مقصود حاصل نہ ہوا ـ ایک روز دفعتا قلب پر اس حقیقت وارد ہوگئی اور وہ یہ کہ حدیث میں ہے ـ " المرء مع من احب " جب اس سے معلوم ہوا کہ مقبولین کی ساتھ محبت اور تعلق رکھنے سے رحمت خاص کا وعدہ ہے ـ پس کسی صالح سے توسل کا حاصل یہ ہوا کہ اے اللہ مجھ کو فلاں شخص سے تلبس ہے اور اس تلبس پر آپ کا رحمت خاص کا وعدہ ہے پس میں اس رحمت خاص کا سوال کرتا ہوں اور جس جگہ یہ بات سمجھ میں آئی تھی وہ جگہ بھی یاد ہے اس وقت اس قدر خوشی ہوئی تھی کہ اگر دس ہزار روپیہ بھی ملتا تو اتنی خوشی نہ ہوتی اور توسل بالاعمال می بھی ذرا تغیر الفاظ کے ساتھ یہی حقیقت ہے کہ فلاں عمل سے آپ کو محبت ہے اور اس عمل پر رحمت خاص کا وعدہ ہے ـ اور ہم کو اس عمل سے صدور کا تلبس ہے ـ اب ہم اس رحمت خاص کا سوال کرتے ہیں ـ رذائل کے ازالہ کی نہیں امالہ کی ضرورت ہے ( ملفوظ 329 ) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ فطری رذائل کے ازالہ کی ضرورت نہیں ـ امالہ کی ضرورت ہے ـ وہ چیزیں اپنی ذات میں مذموم نہیں اس لئے کہ فطری ہیں ـ ان کا فطری ہونا دیک کر حکماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے ـ کہ ریاضت اور مجاہدہ سے کچھ نفع نہیں ہوتا ـ جو چیزیں جبلی ہیں وہ نہیں بدل سکتی ـ اس لئے سعی اور کوشش بیکار ہے ـ یہ حکماء سمجھے نہیں ـ مجاہدہ سے جبلی اور فطری کا ازالہ نہیں کیا جاتا ـ اس میں تو حکمتیں ہیں ـ اس لئے ااس کو باقی رکھا جاتا ہے ـ البتہ وہ کبھی اپنے اختیار سے اعتدال سے بڑھ جاتی ہیں ـ ریاضت اور مجاہدہ سے وہ اعتدال پر آجاتی ہیں ـ